کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 35
کارروائیوں اور ان کے خلاف شروع کی گئی اس بھرپور نفساتی جنگ کی وجہ سے مسلم بن عقیل کے طرف داروں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ ان کے پاس صرف ساٹھ آدمی باقی رہ گئے۔[1] اس کے بعد مسلم بن عقیل اور ان کے پیروکاروں اور محمد بن اشعث، قعقاع بن شور اور شبت بن ربعی کے درمیان معرکہ ہوا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ معرکہ زیادہ طویل نہیں تھا اور یہ اس لیے کہ جب قعقاع کو معلوم ہوا کہ یہ جنگجو صرف جان بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں تو اس نے انہیں راستہ دینے کا حکم دیا۔ اس طرح وہ مسجد کی طرف بھاگ گئے اور پھر تھوڑی دیر بعد مسلم بن عقیل اکیلے ہی کوفہ کی گلیوں میں مارے مارے پھرتے نظر آئے۔[2] ۴۔ مسلم بن عقیل کی گرفتاری اور قتل:… مسلم بن عقیل تن تنہا کوفہ کی گلیوں میں پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر آنے جانے لگے، وہ ایک گھر کے دروازے پر آئے تو ایک عورت گھر سے باہر آئی ،آپ نے اس سے پانی مانگا، اس نے پانی پلایا اور پھر گھر کے اندر چلی گئی، جب تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلی تو مسلم بن عقیل دروازے پر ہی موجود تھے، وہ کہنے لگی: آپ کا اس جگہ بیٹھنا مشکوک ہے لہٰذا یہاں سے اٹھ جائیں ۔ انہوں نے کہا: میں مسلم بن عقیل ہوں ۔ کیا تیرے ہاں مجھے جگہ مل سکتی ہے۔ اس نے کہا: ہاں ، پھر اس نے آپ کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اس خاتون کا بیٹا محمد بن اشعث کا آزاد کردہ غلام تھا وہ اس کے پاس گیا اور اسے صورت حال سے مطلع کر دیا۔ اس پر عبیداللہ نے مسلم کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس بھیجی، آپ تلوار لہراتے گھر سے باہر آئے اور لڑنے لگے مگر ابن اشعث نے انہیں امان دے دی اور آپ نے اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیا۔[3] ابن زیاد کی طرف جاتے ہوئے مسلم بن عقیل رونے لگ گئے۔ ان سے کہا گیا: جو لوگ آپ جیسے مقاصد کے متلاشی ہوتے ہیں وہ رویا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم میں نہ تو اپنے لیے روتا ہوں اور نہ مجھے اپنے قتل کیے جانے کا کوئی غم ہے بلکہ میں اپنے ان اہل خانہ کے لیے روتا ہوں جو کوفہ آ رہے ہیں ، میں حسین اور آل حسین رضی اللہ عنہم کے لیے روتا ہوں ۔ پھر مسلم بن اشعث کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: مجھے لگتا ہے کہ تو میری امان سے عاجز آ جائے گا، کیا تو ایسا کر سکتا ہے کہ کسی آدمی کے ہاتھ میرا خط حسین رضی اللہ عنہ کو پہنچا دے؟ میرے خیال میں وہ اور ان کے اہل بیت یہاں آنے کے لیے روانہ ہو چکے ہوں گے۔ انہیں بتایا جائے کہ مسلم بن عقیل
[1] تاریخ الطبری: ۶/۲۹۳۔ [2] ایضا: ۶/۲۹۳۔ [3] ایضا۔ [4] ایضا: ۶/۲۹۱۔ [5] تاریخ الطبری: ۶/۲۹۱۔