کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 33
اور اس سے بیعت کے لیے لوگوں کو جمع کر رہا ہے؟ اس پر ہانی کہنے لگے: میں نے نہ تو یہ کام کیا ہے اور نہ اس بارے کچھ جانتا ہی ہوں ۔ عبیداللہ نے یہ سن کر اسی غلام کو جو ان کی جاسوسی پر مامور تھا اپنے پاس بلایا۔ ابن زیاد نے ہانی بن عروہ سے پوچھا: اسے جانتے ہو؟ ہانی اسے دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ ہماری جاسوسی کر رہا تھا اور اس نے اسے سب کچھ بتاہی دیا ہو گا۔ ہانی کہنے لگے: امیر محترم! میں تمہارے سامنے سچ بولوں گا، اللہ کی قسم! میں نے مسلم بن عقیل کو نہیں بلایا اور نہ مجھے اس کے بارے میں کچھ علم ہی تھا، مگر اب میں انہیں اپنے گھر سے نکال دوں گا تاکہ وہ جہاں چاہیں چلے جائیں اور میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تیرے پاس دوبارہ آؤ ں گا۔ اس پر ابن زیاد نے کہا: تم اسے میرے پاس لانے تک یہاں سے نہیں جا سکتے۔ ہانی بولے: یہ میرے لیے اچھا نہ ہو گا کہ میں اپنے مہمان اور پڑوسی کو قتل کروانے کے لیے تیرے حوالے کر دوں ۔ اللہ کی قسم! میں ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔ یہ سن کر عبیداللہ نے عصا اٹھا کر ان کے چہرے پر مارا جس سے ان کی پیشانی اور ناک زخمی ہو گئی[1] اور پھر انہیں ایک گھر میں بند کر دیا گیا۔ عمرو بن حجاج زبیدی کو خبر ملی کہ ہانی کو قتل کر دیا گیا ہے وہ اپنے قبیلہ مذحج کے ساتھ آیا اور آتے ہی محل کا محاصرہ کر لیا اور پھر یہ اعلان بھی کر دیا کہ میں نے بیعت نہیں توڑی، میں تو صرف ہانی کی سلامتی کے بارے میں اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ اس پر ابن زیاد نے قاضی شریح کو حکم دیا کہ وہ ہانی کے پاس جائیں اور اسے دیکھ کر بنو مذحج کے لوگوں کو بتائیں کہ وہ زندہ و سلامت ہے۔ چنانچہ انہوں نے ابن زیاد کے حکم کی تعمیل کر دی۔[2] اس پر اس قبیلہ کا سردار عمرو بن حجاج کہنے لگا: جب تمہارا ساتھی زندہ ہے تو پھر اپنے آپ کو مصیبت میں نہ ڈالو، تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ ۔ ۳۔ کوفہ کی سرکشی ختم کرنے کے لیے ابن زیاد کی نگرانی:… جب مسلم بن عقیل کو ہانی بن عروہ کے چہرے پر ضرب لگنے کی خبر ملی تو اس نے حکم دیا کہ اس کی بیعت کرنے والے اس کے اصحاب کو آواز دی جائے۔ یہ اعلان سن کر وہ لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے اس وقت ان کی تعداد چار ہزار تھی۔[3] مسلم بن عقیل عبیداللہ بن عمرو بن عزیز کندی، مسلم بن عوسجہ اسدی، ابو ثمامہ صائدی اور عباس بن جعدہ جدلی کو ساتھ لے کر قصر امارت کی طرف بڑھے، جب زیاد کو ان کے آنے کی اطلاع ملی تو اس نے قصر میں اپنی حفاظت کا انتظام کیا اور اس کے سب دروازے بند کرا دئیے۔[4] ابن زیاد بہت بڑا مکار اور دھوکے باز
[1] الاخبار الطوال، ص: ۲۱۸۔ تاریخ الطبری: ۶/۲۸۴۔ [2] تاریخ الطبری: ۶/۲۸۴۔