کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 327
اور تعزیہ۔ اس لیے ایک فقیہ کے ذمہ لازم ہے کہ وہ ان شعائر کو جائز قرار دے کیونکہ ان شعائر پر وہ رونا مرتب ہوتا ہے جو راجح ہے جیسا کہ تعزیہ بنانا اور اٹھانا کہ یہ ایک قصدی عنوان ہے۔ اس کا نکالنا ضروری ہے۔ یہ عزاداری کا عنوان ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف قوموں میں تعزیت اور عزاداری کے عناوین اور صورتیں مختلف ہیں ۔ عزاداری کا جو طریقہ اہل تشیع کے ہاں رائج ہے وہ شرعی ممنوعہ بدعت کے زمرے میں نہیں آتا۔ لہٰذا جس کو بھی تعزیت اور عزاداری کے ان رائج طریقوں کی مشروعیت پر شک ہے اسے پہلے بدعت کا مفہوم سمجھنا چاہیے، پھر جس پر چاہے اس بدعت کی تطبیق کرے۔‘‘[1]
حسن مغنیہ لکھتا ہے:
’’چوتھی صدی ہجری میں جب بویہی دور آیا تو انہوں نے بغداد، عراق، خراسان، ماوراء النہر اور ساری دنیا میں ان رسومات کی بنیاد رکھی۔ اب سیاہ پرچم ہر طرف لہرائے جانے لگے اور لوگوں نے ماتمی جلوس نکالنے شروع کیے جن میں اہل تشیع سینہ کوبی کرتے تھے۔ اسی طرح حمدانی کے دور میں حلب اور موصل کا حال بھی تھا۔ پھر فاطمیوں کا دور آیا۔ ان کے دور کی رسومات بغداد کی رسومات کے تابع تھیں ۔ فاطمیوں نے ان اصول پر اکتفا کیا جو آج تمام اسلامی اور عربی بلاد و امصار میں پھیلی ہوئی ہیں بالخصوص عراق، ایران، ہندوستان (پاکستان)، شام اور حجاز۔ چنانچہ ماتمی جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا، نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کی جاتی اور آنسو بہائے جاتے۔ آج ان حسینی شعائر کو قائم کرنا دین کی خدمت اور اعلانِ حقیقت کا مظہر بن چکا ہے۔‘‘[2]
شیعہ امام اور شہید آیت اللہ حسن شیرازی ان شعائر و رسومات کی تاریخ اور ادوار کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ظلم ہے کہ اہل تشیع کو ان ادوار سے قبل ان رسومات کے ادا کرنے کی اجازت نہ تھی اور نہ وہ اس پر قادر ہی تھے۔ کیونکہ شیعہ بنو عباس اور بنو امیہ کے ظلم و ستم کے ہاتھوں کمزور تھے۔ ان پر سال کے موسموں کی طرح گرم سرد موسم آتے رہتے تھے۔ چنانچہ حالات کے اعتبار سے ان کی تعبیرات مختلف رہی ہیں ۔[3]
آگے موصوف شیرازی اہل تشیع پر آنے والے پانچ ادوار کا ذکر کرتے ہیں :
[1] ضمیمہ جلد دوم ’’صراط النجاۃ‘‘ للخوئی، ص: ۵۶۲ ط ۱۴۱۷ ہـ۔
[2] آگے عباس قمی اور خونساری کی تصریحات بھی آ جاتی ہیں کہ یہ معز الدولہ بویہی تھا جس نے سب سے پہلے لوگوں کو اس بات کا حکم دیا تھا کہ وہ گلی کوچوں اور بازاروں میں ماتمی جلوس نکالیں اور نوحہ زنی اور سینہ کوبی کریں ۔
[3] احمد بن فہد الحلی ’’عدۃ الداعی، ص: ۱۶۹‘‘ پر امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’تین آنکھوں کے سوا روزِ قیامت ہر آنکھ رو رہی ہو گی: (۱) ایک وہ آنکھ جو محارم کے دیکھنے سے پست رہے۔ (۲) دوسری وہ آنکھ جو رب کی طاعت میں جاگتی رہے۔ (۳) تیسری وہ آنکھ جو رات میں خوفِ خدا سے روتی ہو۔
رونا اللہ کے خوف سے ہوتا ہے ناکہ اس طرح جس طرح حسینیات اور ماتمی جلوسوں اور مجلسوں میں ہوتا ہے۔