کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 32
سے یہ وعدہ کر لیا۔ شامی نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور آخرکار وہ مسلم بن عقیل تک رسائی میں کامیاب ہو گیا، وہ ان سے براہ راست ملاقاتیں کرتا، وہ دن بھر ان کے ساتھ رہتا اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرتا رہتا اور رات کے اندھیروں میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس جا کر اسے جملہ معلومات سے آگاہ کر دیتا اور اسے یہ بھی بتاتا کہ انہوں نے کیا کہا اور کیا کیا، ایک دن اس نے ابن زیاد کو یہ بھی بتا دیا کہ مسلم بن عقیل ہانی بن عروہ کے گھر میں مقیم ہیں ۔[1] اس طرح ابن زیاد نے مسلم بن عقیل کی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کر لی۔[2] ۲۔ ہانی بن عروہ کی گرفتاری:… محمد بن اشعث اور اسماء بن خارجہ عبیداللہ بن زیاد کو سلام کرنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ ایک دن ابن زیاد نے ان سے پوچھا: ہانی بن عروہ نے کیا کیا؟ انہوں نے جواب دیا: وہ کئی دنوں سے بیمار ہے۔ اس پر ابن زیاد کہنے لگا: وہ کیسے، مجھے تو یہ خبر ملی ہے کہ وہ سارا دن گھر کے دروازے پر بیٹھا رہتا ہے۔ اسے ہمارے پاس آنے اور ہمیں سلام کہنے سے کس چیز نے روک رکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ہم اسے اس سے مطلع کریں گے اور اسے بتائیں گے کہ تم امیر کے پاس حاضر ہونے میں تاخیر کر رہے ہو۔ پھر وہ یہاں سے نکل کر ہانی بن عروہ کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ امیر نے ان سے کیا کہا اور ہم نے اسے کیا جواب دیا۔ پھر کہنے لگے: تم اسی وقت ابن زیاد کے پاس جانے کے لیے ہمارے ساتھ چلو تاکہ تمہارے بارے میں اس کا دل صاف ہو جائے۔ ہانی اپنے خچر پر سوار ہو کر ابن زیاد کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہ قصر امارت کے قریب پہنچا تو ان کی نیت میں خلل آ گیا اور ان دونوں سے کہنے لگے: مجھے تو اس آدمی سے ڈر لگتا ہے۔ انہوں نے کہا: وہ کیوں ؟ تم تو بالکل صاف ہو۔ وہ ان کے ساتھ چلے یہاں تک کہ ابن زیاد کے پاس پہنچ گئے۔ انہیں دیکھ کر ابن زیاد نے یہ شعر پڑھا: ارید حیاتہ و یرید قتلی عذیرک من خلیلک من مراد ’’میں اس کی زندگی چاہتا ہوں جبکہ وہ میرے قتل کا خواہش مند ہے۔ اپنے دوست مرادی کے لیے میرا عذر سن رکھو۔‘‘ ہانی کہنے لگے: امیر محترم! اس کا کیا مطلب؟ ابن زیاد بولا: اس سے بڑی بات کیا ہو گی کہ تو نے مسلم بن عقیل کو لا کر اسے اپنے گھر میں ٹھہرا رکھا ہے
[1] تاریخ الطبری: ۶/۲۸۰۔