کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 31
بن علی رضی اللہ عنہما تشریف لے آئے ہیں لہٰذا وہ جہاں سے بھی گزرتے لوگ انہیں سلام کرتے ہوئے خوش آمدید کہتے اور جب اس کے پاس لوگوں کا ہجوم ہو گیا تو مسلم بن عمرو چلا کر کہنے لگا: پیچھے ہٹ جاؤ ، یہ امیر عبیداللہ بن زیاد ہیں ۔ جب وہ محل میں اترا تو ’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ کی آواز دی گئی، جب لوگ جمع ہو گئے تو وہ ان کے پاس آیا اور انہیں خطبہ دیتے ہوئے اطاعت گزاروں سے خیر کا وعدہ کیا اور فتنہ کھڑا کرنے کے لیے کوشاں مخالفین کو شر اور برائی کی دھمکی دی۔[1]
مسلم بن عقیل کے خاتمہ کے لیے عبیداللہ بن زیاد کے اقدامات:
۱۔ مسلم بن عقیل کی تنظیم کا توڑ:… عبداللہ بن زیاد نے اپنے جاسوسوں کے ذریعہ سے مخالف گروہوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں اور پھر ان کی روشنی میں مسلم بن عقیل کے پیروکاروں کو توڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے اس مہم کو سر کرنے کے لیے معقل نامی ایک شامی شخص کی خدمات حاصل کیں اور اس کے لیے اسے تین ہزار درہم کی رقم فراہم کی، وہ یہ رقم وصول کر کے مسلم بن عقیل کی تلاش کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور آخرکار بڑی آسانی کے ساتھ انہیں تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ وہ شہر کی بڑی مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مسجد کے ستون کے ساتھ ایک آدمی بڑی کثرت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے۔ وہ اس کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو اس سے کہنے لگا: میں تم پر قربان، میں شام کا رہنے والا ہوں اور بنو کلاع کا آزاد کردہ غلام ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اہل بیت کی محبت اور ان سے محبت کرنے والوں کی محبت سے نوازا ہے۔ میرے پاس تین ہزار درہم ہیں اور میں یہ رقم ان میں سے کسی ایک شخص تک پہنچانا چاہتا ہوں ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حسین بن علی( رضی اللہ عنہما ) کا کوئی نمائندہ یہاں پہنچا ہے۔ کیا تم مجھے اس کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہو؟ تاکہ میں یہ رقم اس تک پہنچا سکوں ؟ اور وہ اپنے بعض معاملات میں اس سے فائدہ اٹھا سکے اور اپنے شیعوں میں سے جس پر چاہے خرچ کر سکے، وہ آدمی کہنے لگا: مسجد میں اور بھی کئی لوگ موجود ہیں مگر تم نے مجھ سے ہی یہ سوال کیوں کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: اس لیے کہ میں نے تم میں خیر کی کچھ علامات دیکھی ہیں جن سے مجھے یہ امید ہوئی کہ تمہارا شمار اہل بیت سے محبت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ وہ آدمی کہنے لگا: تو نے صحیح سمجھا، میرا شمار بھی تیرے بھائیوں میں ہوتا ہے۔ میرا نام مسلم بن عوسجہ ہے، مجھے تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی، میں اہل بیت کے شیعہ میں سے ہوں اور مجھے اس سرکش ابن زیاد سے خوف محسوس ہوتا ہے تم مجھ سے اللہ کے نام پر وعدہ کرو کہ تم یہ بات سب لوگوں سے مخفی رکھو گے۔ اس نے ان
[1] تاریخ الطبری: ۶/۷۷۔ @
[2] ایضا۔
[3] ایضا: ۶/۲۷۸۔
[4] ایضا: ۶/۲۷۹۔
[5] ایضا۔