کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 30
کی طرف نہ دوڑو۔ اس میں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں ، خوں ریزی ہوتی ہے اور مال و اسباب چھن جاتے ہیں ۔ نعمان رضی اللہ عنہ بڑے بردبار اور زاہد شخص تھے۔ انہوں نے کہا: جو شخص مجھ سے جنگ و جدال نہیں کرے گا میں بھی اس سے جنگ آزمائی نہیں کروں گا، جو مجھ پر حملہ آور نہیں ہو گا میں بھی اس پر حملہ نہیں کروں گا، میں نہ گالی گلوچ کروں گا نہ کسی پر سختی کروں گا، افتراء، بدگمانی اور تہمت پر گرفت نہیں کروں گا، لیکن اگر تم نے روگردانی کرتے ہوئے نقض عہد کیا اوربیعت کو توڑا، اپنے امام کی مخالفت کی، تو قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں جب تک میرے ہاتھ میں تلوار رہے گی میں تم پر وار کرتا چلا جاؤ ں گا، تم میں سے کوئی شخص میرا شریک اور مددگار ہو یا نہ ہو۔ البتہ مجھے امید ہے کہ تم لوگوں میں حق کے طرف دار ان لوگوں سے زیادہ ہوں گے جنہیں باطل نے تباہ کر رکھا ہے۔[1]
یہ سن کر عبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی جو بنو امیہ کا وفادار اور حلیف تھا اٹھا اور نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا کہ تمہارا یہ طریقہ کمزور لوگوں کا طریقہ ہے، جو کچھ تم دیکھ رہے ہو اس کی اصلاح سخت گیری کے بغیر ممکن نہیں ۔جو لوگ کوفہ کے امن و امان کی صورتِ حال کو خراب کرنے کے درپے ہیں ان کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے اس کا جو جواب دیا اس سے یہ واضح تھا کہ وہ اپنی سیاست میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے کے حامی تھے۔[2]
یزید کو نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی یہ سیاست پسند نہ آئی چنانچہ اس نے انہیں کوفہ کی ولایت سے معزول کر کے ان کی جگہ عبیداللہ بن زیاد کو والی کوفہ متعین کر دیا اور اس کی طرف یہ خط لکھا: میرے وفادار اہل کوفہ نے مجھے خبر دی ہے کہ مسلم بن عقیل کوفہ میں آ کر مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کر رہے ہیں ، میرا یہ خط پڑھتے ہی کوفہ کی طرف روانہ ہو جاؤ اور وہاں ابن عقیل کو اس طرح تلاش کرو جس طرح کوئی نگینہ کو تلاش کرتا ہے، انہیں گرفتار کر لو، یا قتل کر دو، یا شہر سے نکال باہر کرو۔[3]
دوسرے دن ابن زیاد نے اپنے بھائی عثمان بن زیاد کو بصرہ پر اپنا جانشین بنایا[4] اور مسلم بن عمرو باہلی، شریک بن اعور حارثی اور اپنے حشم و خدم اور اہل و عیال کے ہمراہ بصرہ سے کوفہ روانہ ہو گیا۔[5] جب ابن زیاد کوفہ پہنچا تو اس وقت اس نے سر پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا، ادھر لوگوں کو حسین رضی اللہ عنہ کی آمد کی بھی خبر ہو چکی تھی اور وہ ان کی شہر میں تشریف آوری کا انتظار کر رہے تھے، جب عبیداللہ ادھر آیا تو لوگوں نے سمجھا کہ حسین
[1] الطبقات: ۷/۱۴۷۔ تاریخ خلیفۃ، ص: ۱۶۴۔
[2] مختصر تاریخ دمشق: ۷/۱۴۰۔
[3] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ، ص: ۴۸۱۔
[4] تہذیب الکمال: ۶/۴۱۹۔ مواقف المعارضۃ، ص: ۲۴۳۔
[5] سیر اعلام النبلاء: ۳/۳۰۴۔ مواقف المعارضۃ، ص: ۳۴۴۔