کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 29
امت محمدیہ کا اجتماع مجھے ان کے افتراق سے زیادہ پسند ہے۔[1] یہ بات خاص طور پر نوٹ کی جائے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے تمام خیرخواہوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ انہیں عراق نہیں جانا چاہیے اور یہ کہ اہل عراق پر قطعاً اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک خط میں لکھا تھا کہ انہیں عراقیوں کے خطوط کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔ انہیں یہ بھی نصیحت کی گئی تھی کہ وہ حرم میں ہی موجود رہیں اگر لوگوں کو ان کی ضرورت ہو گی تو وہ خود ان کی طرف دوڑے چلے آئیں گے اس طرح وہ پوری قوت اور تیاری کے ساتھ عراق روانہ ہو سکیں گے۔[2]
ناصحینِ حسین رضی اللہ عنہ کا اس بات پر بھی اتفاق تھا کہ اہل عراق خائن لوگ ہیں لہٰذا وہ کسی بھی صورت قابل اعتماد نہیں ہیں ۔ مزید برآں وہ سب کے سب ان کی شہادت کا خطرہ بھی محسوس کر رہے تھے اور یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خیرخواہ یہ علماء نئے حالات و واقعات سے بخوبی آگاہ تھے اور ان گزشتہ واقعات سے بھی جو فتنہ کے دوران میں سیّدنا علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان وقوع پذیر ہوئے۔[3]
کوفہ کے واقعات کے بارے میں یزید کا موقف:
جب یزید کو یقین ہو گیا کہ حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے پرعزم ہیں تو اس نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو خط لکھا کہ مشرق سے کچھ لوگوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر انہیں خلافت کا لالچ دیا ہے۔ اگر وہ ان کی باتوں میں آ گئے ہیں تو انہوں نے قرابت داری کی رسیوں کو منقطع کر دیا ہے۔ آپ اپنے گھرانے کے بڑے فرد اور منظورِ نظر ہیں ۔ لہٰذا انہیں تفرقہ بازی کی کوششوں سے روکیں ۔[4] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے یزید کے خط کے جواب میں لکھا: مجھے امید ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا خروج کسی غیر پسندیدہ مقصد کے تحت نہیں ہو گا۔ میں ہر اس چیز کو بروئے کار لانے کی پوری پوری کوشش کروں گا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ باہمی الفت کو قائم رکھے اور شورش کی آگ کو ٹھنڈا کر دے۔[5]
اس کے بعد واقعات بڑی سرعت کے ساتھ تبدیل ہونے لگے، اہل کوفہ مسلم بن عقیل کے پاس آنے اور بڑی کثرت کے ساتھ ان سے بیعت کرنے لگے۔ جب والی کوفہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے صورتِ حال کی خطرناکی کو محسوس کیا تو انہوں نے حق تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور فتنہ و فساد
[1] مختصر تاریخ دمشق: ۷/۱۳۹۔
[2] سیر اعلام النبلاء: ۳/۲۹۶۔
[3] تاریخ دمشق: ۱۴/۲۰۹۔ احداث و احادیث فتنۃ الہرج، ص: ۲۱۲۔
[4] مختصر تاریخ دمشق: ۷/۱۴۴۔
[5] تاریخ دمشق: ۱۴/۲۱۴۔