کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 28
ط: عبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ :… انہوں نے کہا: میرے والدین آپ پر قربان، اپنی ذات سے ہمیں فائدہ پہنچائیں اور عراق جانے کا ارادہ ترک کر دیں ، اللہ کی قسم اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کر دیا تو یہ ہمیں غلام بنا لیں گے۔[1] ي: سعید بن مسیب:… امام ذہبی نے ان سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اگر حسین رضی اللہ عنہ عراق نہ جاتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔[2] ک: عمرو بن سعید بن العاص:… انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو لکھا: میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو صحیح راستہ القا کرے اور تباہ کن چیز سے دُور ہٹا دے، مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے عراق جانے کا عزم کر لیا ہے، میں تمہیں تشتت و اختلاف سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ۔[3] ل: فرزدق:… مشہور محبِ اہل بیت شاعر فرزدق نے صفاح کے مقام پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، آپ نے اس سے پوچھا: تیرے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا: لوگ آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں مگر ان کی تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں ۔ اور فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں ۔[4] دوسری روایت میں آتا ہے کہ اس نے کہاکہ میں نے حسین رضی اللہ عنہ سے کہا: اہل عراق تمہیں بے یارومددگار چھوڑ دیں گے، ان کے پاس مت جائیں ۔ مگر انہوں نے میری بات نہیں مانی۔[5] حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی عراق روانگی کے بارے میں صحابہ و تابعین کے موقف کے بارے میں یہ ہیں ان کے اقوال اور اس اہم ترین قضیہ کے بارے میں ان کا فلسفہ۔ انہوں نے یزید کی بیعت اس لیے نہیں کی تھی کہ وہ اسے دیگر صحابہ کرام اور تابعین سے افضل خیال کرتے تھے بلکہ انہوں نے مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ بازی سے بچنے کے لیے اس سے بیعت کی تھی۔ اس کی دلیل حمید بن عبدالرحمن سے مروی ان کا یہ بیان ہے کہ جب یزید بن معاویہ کو خلیفہ بنایا گیا تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک آدمی کے پاس گئے تو انہوں نے فرمایا: کیا تم لوگ یہ کہتے ہو کہ یزید امت محمدیہ کا بہتر آدمی نہیں ہے، زیادہ سمجھ دار بھی نہیں ہے اور نہ زیادہ عز و شرف والا ہے؟ ہم نے کہا: ہاں ۔ انہوں نے فرمایا: میں بھی یہی کہتا ہوں ، مگر اللہ کی قسم!
[1] تاریخ الطبری: ۶/۳۱۲۔ [2] مختصر تاریخ دمشق: ۷/۱۳۹۔ [3] ایضا: ۷/۱۴۰۔ [4] البدایۃ و النہایۃ: ۱۱/۵۰۴۔