کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 27
’’میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو اس راستہ سے دُور کر دے جس میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے اور اس راستہ کی طرف رہنمائی کر دے جس میں سلامتی ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ عراق جا رہے ہیں ، میں آپ کی ہلاکت سے ڈرتا ہوں ۔ میں عبداللہ بن جعفر اور یحییٰ بن سعید کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں ، ان کے ساتھ واپس آ جائیں ، میرے پاس آپ کے لیے امن، نیکی، احسان اور حسن جوار ہے، اللہ اس پر شاہد ہے اور وہی اس کا نگہبان اور کفیل ہے۔‘‘ و السلام[1]
مگر حسین رضی اللہ عنہ نے اس پیش کش کو بھی مسترد کر دیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔
ز: ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ :… ان سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں : مجھے حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کی خبر ملی تو میں نے انہیں اللہ کا واسطہ دے کر کہا کہ آپ ایسا نہ کریں ، یہ خروج کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں ہے۔ اس طرح آپ اپنے آپ کو ہلاکت سے دوچار کر دیں گے۔ مگر انہوں نے کہا کہ میں واپس نہیں جاؤ ں گا۔[2]
د: عمرہ بنت عبدالرحمن:… انہوں نے ایک خط کے ذریعے سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے اس فعل کی سنگینی سے آگاہ کیا اور انہیں اطاعت اور لزوم جماعت کا مشورہ دیا اور انہیں بتایا کہ انہیں ان کے مقتل کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔[3]
ح: ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہ :… آپ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: میرے عم زاد! رشتہ داری مجھے تم پر رحم کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں تمہاری خیر خواہی کیسے کروں ؟ انہوں نے فرمایا: ابوبکر! آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں ضرور کہیں ۔ انہوں نے فرمایا: اہل عراق نے تمہارے باپ اور تمہارے بھائی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ تم ان لوگوں کے پاس جانا چاہتے ہو حالانکہ وہ دنیا کے پجاری ہیں ، تمہارے ساتھ وہی لوگ قتال کریں گے جنہوں نے تم سے مدد کا وعدہ کیا ہے اور تمہیں وہی لوگ بے یار و مددگار چھوڑیں گے جنہیں تم ان لوگوں سے زیادہ پیارے ہو جن کی وہ معاونت کریں گے۔ میں تمہارے بارے میں تمہیں اللہ یاد کراتا ہوں ۔ یہ سن کر انہوں نے فرمایا: میرے عم زاد! اللہ تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ میرے بارے میں اللہ جو بھی فیصلہ کر چکا ہے وہ نافذ ہو جائے۔ اس پر ابوبکر نے انا للہ پڑھا اور فرمایا: ابوعبداللہ! ہم اللہ سے ثواب حاصل کریں گے۔[4]
[1] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۵/۹۵۔ حسن سند کے ساتھ۔
[2] مواقف المعارضۃ، ص: ۲۳۶۔
[3] تہذیب الکمال: ۶/۴۶۱۔ الطبقات: ۱/۴۴۵۔
[4] ایضا۔
[5] تاریخ الطبری: ۶/۳۱۱۔
[6] ایضا۔