کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 26
مطمئن کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔ حالانکہ ان کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ انہوں نے انہیں کوفہ جانے سے خبردار کرتے ہوئے اور ان کی خیرخواہی کرتے ہوئے فرمایا تھا: آپ ان لوگوں کے پاس جا رہے ہیں جنہوں نے آپ کے باپ کو قتل کیا اور بھائی کو زخمی کیا۔ اس پر انہوں نے فرمایا: اگر مجھے فلاں فلاں جگہ قتل کر دیا جائے تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میری وجہ سے مکہ مکرمہ کی حرمت پامال کی جائے۔[1]
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو صاحب بیعت امام کے خلاف خروج سے تعبیر کیا تھا۔ انہوں نے ان کے خروج کو اس طرح بھی دیکھا کہ طرفین کے لیے اس کے جو بھی نتائج ہوں یہ امت کے لیے شر اور آزمائش کا پیغام لے کر ہی آئے گا۔[2]
د: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ :… انہوں نے فرمایا تھا: حسین رضی اللہ عنہ خروج کے حوالے سے مجھ پر غالب آ گئے۔ میں نے ان سے کہا تھا: اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈریں ، اپنے گھر میں ٹکے رہیں اور اپنے امام کے خلاف خروج نہ کریں ۔[3]
ھ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما :… آپ فرماتے ہیں : میں نے حسین رضی اللہ عنہ سے بات کی اور ان سے کہا: اللہ سے ڈریں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف نہ بھڑکائیں ۔ اللہ کی قسم تم جو کچھ کر رہے ہو وہ لائق ستائش نہیں ہے۔ مگر انہوں نے میری ایک نہ مانی۔[4]
و: عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما :… انہوں نے آپ کے نام خط لکھا اور اسے اپنے دو بیٹوں محمد اور عون کے ہاتھوں ان تک پہنچایا، انہوں نے اس میں لکھا تھا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ یہ خط پڑھتے ہی اپنے ارادے سے باز آ جائیں ۔ اس لیے کہ اس راہ میں آپ کے لیے ہلاکت اور اہل بیت کی بربادی ہے۔[5] مگر حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس سے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کا سبب یزید کے والی عمرو بن سعید بن العاص کا خوف ہے۔ چنانچہ انہوں نے عمرو بن سعید سے مطالبہ کیا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے نام خط لکھ کر انہیں ہر طرح سے مطمئن کر دو۔ عمرو نے کہا: آپ جو کچھ چاہیں لکھ لائیں ، میں اس پر مہر لگا دوں گا۔[6] چنانچہ انہوں نے والی عمرو بن سعید کی جانب سے یہ خط لکھا:
[1] الطبقات الکبری، تحقیق سلمی: ۱/۴۴۴۔
[2] سیر اعلام النبلاء: ۳/۲۹۲۔
[3] مختصر تاریخ دمشق: ۷/۱۳۸۔