کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 256
’’حسن اور حسین نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں ۔‘‘[1]
٭ … نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’عنقریب بے شمار فتنے ظاہر ہوں گے۔ پس جس نے اس امت کے امر میں تفرقہ پیدا کرنا چاہا جبکہ وہ ایک ہو تو اس کی گردن مار دو خواہ وہ جو کوئی بھی ہو۔‘‘[2]
یہ حکم اس وقت ہے جب ایک شخص امام کے خلاف خروج پر مصر ہو جائے، نصیحت قبول نہ کرے اور قتال کیے بنا نہ ٹلے۔ جبکہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جب اہل کوفہ کے سامنے تین تجاویز رکھ دیں تو آپ نے ان کے ان سب دلائل کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جن کے سہارے وہ خونِ حسین رضی اللہ عنہ کو مباح سمجھے بیٹھے تھے بالخصوص جب آپ نے اس بات کا بھی اعلان کر دیا کہ آپ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر تیار ہیں چنانچہ آپ نے اہل کوفہ سے ارشاد فرمایا:
’’میں یزید کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتا ہوں پھر وہ اپنے اور میرے درمیان جو فیصلہ صحیح سمجھے کر لے۔‘‘[3]
آپ کا یہ ارشاد اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ یزید آپ کے مقام و مرتبہ کی عظمت کو جانتا تھا اور وہ آپ کا حق پہچانتا تھا۔ لیکن جب ان کوفیوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی تینوں تجاویز کو رد کر دیا تو اب ان کے دامن میں سوائے ظلم و ستم کے اور کچھ باقی نہ رہ گیا تھا۔
٭ … نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جو اپنے امیر میں کوئی ناگوار بات دیکھے تو اس پر صبر کرے کیونکہ جو بھی جماعت سے بالشت بھر جدا ہوا اور پھر اسی حال میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[4]
٭ … نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’اللہ نے اس شخص پر جہنم کی آگ کو حرام کر دیا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے لا الٰہ الا اللہ پڑھتا ہے۔‘‘
حضرت محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
[1] جامع الترمذی: ۳۷۷۵۔امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۴۴) علامہ البانی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے، لیکن اس حدیث کی بابت وہ عقیدہ رکھنا درست نہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمنوں کا عقیدہ ہے، کیونکہ ایسی ہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جُلیَبِیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ارشاد فرمائی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جلیـبـیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں دو مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: ’’یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔‘‘ (صحیح مسلم: ۲۴۷۲) اور اشعریین کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔‘‘ (صحیح البخاری: ۲۳۵۴)