کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 25
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شرعی اعتبار سے یزید کے خلاف ان کے خروج کے خلاف نہیں تھے البتہ وہ اس حکمت عملی کے خلاف تھے۔ ان کے نزدیک حسین رضی اللہ عنہما کو اس وقت تک عراق کے لیے روانہ نہیں ہونا چاہییتھا جب تک انہیں وہاں موجود اپنے حمایتیوں کی طاقت کا علم نہ ہو جائے اور امویوں کے اثر و نفوذ کے خاتمہ کا یقین نہ ہو جائے اور اگر وہ کہیں جانے پر مصر ہی ہیں تو پھر یمن چلے جائیں جو اموی اثر و نفوذ سے دُور ہے اور وہاں ان کے انصار و معاونین بھی ہیں اور چھپنے کے کئی ایک مقامات بھی، اس طرح وہ یزید کے مقابلے میں اپنی تمام قوتوں کو یکجا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ج: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما :… انہوں نے کئی مواقع پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ خیر خواہی کی، جب انہیں یہ خبر ملی کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما یزید کی بیعت کو ردّ کر کے مکہ مکرمہ جا رہے ہیں تو وہ ان سے کہنے لگے: میں تم دونوں کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ یہیں سے لوٹ جاؤ اور حالات کا انتظار کرو۔ اگر لوگوں کا اس پر اتفاق ہو جائے تو تم اس سے علیحدہ نہ رہو اور اگر اس پر اتفاق نہ ہو سکے تو اس سے تمہارا مقصد پورا ہو جائے گا۔[1] جب مدینہ منورہ آنے پر انہیں ان کے کوفہ روانہ ہونے کی خبر ملی تو وہ رات کی مسافت پر انہیں پیچھے سے جا ملے اور ان سے دریافت کیا کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہم عراق جا رہے ہیں ۔ اس وقت ان کے پاس کئی خطوط بھی تھے، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم کوفہ والوں کے پاس مت جاؤ۔ انہوں نے کہا: یہ ان کے خطوط اور بیعت کا عہد ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا و آخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا تو انہوں نے آخرت کو پسند کیا، جبکہ تم بھی انہی کا ایک حصہ ہو۔ تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی اقتدار نہیں سنبھال سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بہتر چیز کے لیے ہی تم سے دنیا کو دُور کیا ہے۔ لہٰذا تم لوٹ چلو۔ مگر انہوں نے اس سے انکار کر دیا، اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما ان سے بغل گیر ہو کر فرمانے لگے: اے مقتول! میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔[2] عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کے بعد فرمایا کرتے تھے: حسین بن علی رضی اللہ عنہما خروج کے بارے میں ہم پر غالب آ گئے۔ مجھے میری زندگی کی قسم یقینا انہوں نے اپنے باپ اور بھائی میں عبرت کا سامان دیکھ لیا ہو گا۔ ایسے حالات میں ان کے لیے متحرک ہونا درست نہیں تھا۔ انہیں لوگوں کے ساتھ ہی رہنا چاہیے تھا اس لیے کہ جماعت میں خیر ہوتی ہے۔[3]
ج: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما :… بعض ضعیف روایات میں ان پر یہ تہمت لگائی گئی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کو روانگی پر