کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 24
ب: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما :… جب ان کی روانگی کا علم ان کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ہوا تو وہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: لوگ یہ سن کر بڑے پریشان ہیں کہ آپ عراق جا رہے ہیں ۔ مجھے اصل حقیقت سے آگاہ کیجیے! حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نے عزم کر لیا ہے کہ آج یا کل روانہ ہو جاؤ ں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کیا آپ ایسے لوگوں میں جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے دشمن کو نکال دیا ہے اور ملک پر قبضہ کر لیا ہے، اگر تو وہ ایسا کر چکے ہیں تو بڑے شوق سے جائیں ، لیکن اگر ایسا نہیں ہوا، حاکم بدستور ان کی گردنیں دبائے بیٹھا ہے اور اس کے کارکن مسلسل اپنی کارستانیاں کر رہے ہیں تو پھر وہ آپ کو فتنہ اور جنگ کی طرف بلا رہے ہیں ، میں ڈرتا ہوں کہ وہ آپ کو دھوکا نہ دیں اور جب دشمن کو طاقت ور دیکھیں تو آپ کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار نہ ہو جائیں ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کروں گا اور صورت حال پر نگاہ رکھوں گا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی گفتگو اور تیاری سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ روانگی کے لیے پرعزم ہیں لیکن چونکہ میں اس سے خوش نہیں ہوں لہٰذا وہ اصل بات مجھ سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جب ان کی روانگی کا وقت قریب آ گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما پھر دوڑے آئے اور کہنے لگے: اے چچا زاد! میں خاموش رہنا چاہتا تھا مگر خاموش رہ نہیں سکتا، میں اس راہ میں آپ کی ہلاکت اور بربادی دیکھ رہا ہوں ، اہل عراق دغا باز قسم کے لوگ ہیں ان کے دھوکے میں نہ آئیں ، یہیں قیام کریں ، یہاں تک کہ جب عراق والے اپنے دشمن کو نکال باہر کریں تو پھر وہاں ضرور تشریف لے جائیے۔ اگر آپ حجاز سے جانا ہی چاہتے ہیں تو پھر یمن چلے جائیں وہاں قلعے اور دشوار گزار پہاڑ ہیں اور ملک کشادہ ہے۔ وہاں کے لوگ آپ کے والد کے ہم نوا ہیں ۔ ان لوگوں سے الگ تھلگ رہیں ، خطوط اور قاصدوں کے ذریعے سے اپنی دعوت پھیلاتے رہیں ، مجھے یقین ہے کہ آپ یہ کام کریں گے تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اے چچا زاد ! میں جانتا کہ آپ میرے خیرخواہ ہیں لیکن اب میں روانگی کا عزم کر چکا ہوں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر آپ نے جانا ہی ہے تو عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ لے جائیں ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ ان کے سامنے اس طرح قتل نہ کر دیے جائیں جس طرح عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنے گھر والوں کے سامنے قتل کر دئیے گئے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پرجوش انداز میں کہا: اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں آپ کے بال پکڑ لوں اور اس پر لوگوں کے جمع ہونے سے آپ رک جائیں گے تو میں یہ کام بھی کر ڈالوں۔مگر آپ پھر بھی اپنے ارادے پر قائم رہے۔
[1] تاریخ الطبری: ۶/۲۷۴۔ [2] ایضا: ۶/۳۰۵۔ [3] انساب الاشراف: ۴/۱۵-۱۶۔