کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 238
مشہور شیعہ مصنف کاظم احسائی نجفی لکھتا ہے: ’’امام حسین علیہ السلام سے قتال کرنے جو لشکر نکلا تھا اس کی تعداد تین لاکھ تھی اور یہ سب کے سب کوفی تھے، ان میں کوئی شامی، حجازی، ہندوستانی، پاکستانی سوڈانی، مصری یا افریقی فرد نہ تھا۔ بلکہ یہ سب کے سب کوفی تھے جو مختلف قبائل سے اکٹھے ہو گئے تھے۔‘‘[1] شیعہ مورخ حسین بن احمد البراقی نجفی لکھتا ہے: ’’ قزوینی کہتا ہے: کوفیوں کا بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے حسن بن علی رحمہم اللہ کو کدال کا وار کر کے زخمی کیا جبکہ حسین بن علی رحمہم اللہ کو بلانے کے بعد قتل کر ڈالا۔‘‘[2] شیعہ علوم و تواریخ کے مرجع المعروف بہ ’’آیۃ اللہ العظمی‘‘ محسن الامین لکھتا ہے: ’’پھر بیس ہزار ان عراقیوں نے حسین( رضی اللہ عنہما ) کی بیعت کی جنہوں نے بعد میں غداری کر کے یہ بیعت توڑ ڈالی اور خود حسین( رضی اللہ عنہما ) کے خلاف خروج کیا، حالانکہ حسین کی بیعت ان کی گردنوں میں تھی اور آخر میں انہوں نے حسین( رضی اللہ عنہما ) کو قتل کر دیا۔‘‘[3] جواد محدثی لکھتا ہے: ’’یہ جملہ اسباب اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے ان عراقیوں سے دو دفعہ سخت تکلیف اٹھائی، امام حسن علیہ السلام نے ان سے غداری کا تجربہ کیا، انہی عراقیوں کے درمیان مسلم بن عقیل مظلوم مارے گئے اور کوفہ کے قریب واقع کربلا کے میدان میں کوفی لشکر کے ہاتھوں امام حسین علیہ السلام کو پیاسا قتل کر دیا گیا۔‘‘[4] شیعہ مشائخ جیسے ابو منصور طبرسی، ابن طاؤ وس اور محسن الامین وغیرہ نے امام علی بن حسین بن علی بن ابی طالب المعروف بہ ’’امام زین العابدین‘‘ سے اور وہ اپنے آباء سے نقل کرتے ہیں کہ زین العابدین رحمہ اللہ اپنے ان شیعہ کو، جنہوں نے ان کے والد ماجد جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا اور بعد میں قتل بھی کر دیا تھا، ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں : ’’اے لوگو! میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا واقعہ یہ نہیں کہ تم لوگوں نے پہلے میرے والد کو خطوط لکھے اور بعد میں انہیں دھوکہ دیا، تم لوگوں نے پہلے ان کو عہد و میثاق دیا اور ان کی بیعت کی لیکن بعد میں ان سے قتال کیا اور انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ تمہارے لیے
[1] فی رحاب کربلا، ص: ۶۰-۶۱۔ [2] فی رحاب کربلا، ص: ۶۱۔ [3] الملحمۃ الحسینیۃ: ۳/۴۷-۴۸۔