کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 23
’’میں نے تمہارے پاس اپنے بھائی اور عم زاد کو بھیجا ہے اور میں نے اسے حکم دیا تھا کہ وہ تمہارے حالات اور رائے سے مجھے تحریری طور پر آگاہ کرے، اس نے مجھے لکھا ہے کہ تمہارے سرکردہ اور عقل مند لوگوں کا مجھ پر اتفاق ہو چکا ہے۔ میں ان شاء اللہ تمہارے پاس آنے ہی والا ہوں ۔‘‘[1]
جب حسین رضی اللہ عنہ کو مسلم بن عقیل کا وہ خط ملا جس میں ان سے کوفہ آنے کی درخواست کی گئی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ کوفہ کے حالات ان کے لیے سازگار ہیں تو وہ اپنے اہل خانہ اور دیگر متعلقین کے ساتھ کوفہ جانے کی تیاری کرنے لگے۔[2]
۲۔ حسین رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بارے میں صحابہ و تابعین کا موقف:
الف: محمد بن حنفیہ:… ان اپنے بھائی کی کوفہ روانگی کا علم ہوا تو وہ آپ کے پاس آئے اور سخت مضطرب ہو کر کہنے لگے: میرے بھائی! آپ مجھے سب لوگوں سے پیارے ہیں اور میری نظروں میں آپ کی عزت بھی بہت زیادہ ہے، مخلوق میں ایسا کوئی شخص نہیں جو میری نصیحت کا آپ سے زیادہ حق دار ہو، آپ یوں کریں کہ خود بھی یزید بن معاویہ کی بیعت نہ کریں اور جہاں تک ہو سکے دوسرے شہروں کو بھی اس سے روکیں ، پھر لوگوں کے پاس اپنے قاصد بھیج کر انہیں اپنی طرف بلائیں اگر وہ لوگ آپ کی بیعت کر لیں تو ہم اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کریں گے اور اگر ان کا کسی اور پر اتفاق ہو جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ نہ آپ کے دین میں کمی کرے گا اور نہ آپ کی عقل میں اور نہ اس سے آپ کی مردانگی میں کوئی کمی ہی آئے گی۔ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کسی شہر میں داخل ہو کر کسی جماعت کے پاس جائیں اور ان کا آپس میں اختلاف ہو جائے، کہ ان میں سے کچھ لوگ آپ کے ساتھ ہوں اور کچھ آپ کے خلاف اور پھر وہ آپس میں لڑ پڑیں اور آپ پہلے نیزے کا شکار بن جائیں اور اس طرح اس امت کے ہر اعتبار سے بہتر اور افضل انسان کا خون رائیگاں چلا جائے۔ مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے بھائی! میں تو جا رہا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا: پھر آپ مکہ چلے جائیں ، اگر آپ کو وہاں اطمینان میسر آئے تو ٹھیک ہے ورنہ شہر شہر پھرتے رہیں اور لوگوں کے فیصلے کا انتظار کریں ۔ انہوں نے جواب دیا: میرے بھائی! تم نے میری خیرخواہی فرمائی اور امید کرتا ہوں کہ تمہاری رائے درست ہو گی۔[3]مگر وہ اپنی کوفہ روانگی پر مصر رہے۔
[1] تاریخ الطبری: ۶/۲۶۷۔
[2] ایضا: ۶/۲۶۷۔
[3] ایضا: ۶/۲۶۷۔
[4] ایضا: ۶/۲۸۴۔
[5] تہذیب الکمال: ۲/۳۰۱۔ مواقف المعارضۃ، ص: ۲۳۲۔
[6] انساب الاشراف: ۳/۱۶۷۔
[7] تاریخ الطبری: ۶/۲۷۲۔