کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 228
اہل تشیع حضرات کے لیے ایک یہی شہادت بس ہے کہ امام جلیل علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رحمہ اللہ جو ان اثنا عشری امامیہ حضرات کے نزدیک ائمہ معصومین میں سے چوتھے امام معصوم ہیں ، وہ بھی اپنی اولاد کا نام حضرات خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے ناموں پر رکھ رہے ہیں ۔ چنانچہ بقولِ شیعہ ان امام معصوم کے ایک بیٹے کا نام عمر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ہے جن کا شیخ مفید[1] نے ذکر کیا ہے۔ جبکہ مشہور مصنف الحر العاملی امام جلیل علی بن حسین رحمہ اللہ کے اس فرزند ارجمند عمر بن علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں لکھتا ہے:
’’بڑے فاضل اور جلیل القدر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین کے صدقات کے والی تھے۔ بڑے متقی، پرہیز گار اور متورع تھے۔‘‘[2]
پھر مرتضیٰ عسکری، جن کو اثنا عشری شیعہ علامہ، محقق اور بحّاثہ (بروزنِ علامہ یعنی بے پناہ تحقیق رکھنے والا) کے اونچے اور گراں قدر القاب سے یاد کرتے ہیں ، کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی مشہور زمانہ (عند الشیعہ) کتاب ’’معالم المدرستین: ۳/۱۲۷‘‘ میں امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے تین بیٹوں کے یہ نام ذکر کرتا ہے: ’’ابوبکر، عمر اور عثمان‘‘۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان اپنی اولاد کا اچھے سے اچھا نام رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور جو نام اسے سب سے زیادہ پسند ہو اسی کو رکھتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم سے سب سے زیادہ محبت تھی، اس لیے آپ نے اپنے بیٹوں کے نام انہی حضرات کے ناموں پر رکھے۔
آل بیت اطہار کی شہادت کا صدمہ:
ان حضرات کی شہادت کا صدمہ ایسا نہ تھا جو دو چار دن تک آنسو بہا کر اور آہیں اور سسکیاں بھر کر فراموش کر دیا جاتا اور اسے طاقِ نسیان پر رکھ کر قصۂ پارینہ بنا دیا جاتا اور نہ گردشِ لیل و نہار اس مصیبت عظمیٰ کے آثار مٹا سکتی ہے۔ حادثۂ کربلا نے امت مسلمہ کے دلوں کو رِستا زخم بنا دیا۔
اس حادثہ عظمیٰ کا دوسرا الم ناک پہلو یہ ہے کہ آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے خونوں نے قیامت تک کے لیے ہر باغی و طاغی اور سرکش و متمرد کو کتاب و سنت کے سچے پیروکاروں کی جان لے لینے پر جری بنا دیا۔ بھلا جس طبقہ نے آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خون ناحق سے گریز نہ کیا، کیا وہ ان کے بعد کسی اور کو بخشے گا؟!! ایں خیال است و محال است و جنوں ! بلکہ ان کے نزدیک جنابِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خون بہا
[1] الارشاد، ص: ۱۸۶۔
[2] اعلام الوری، ص: ۲۰۳۔
[3] مناقب آل ابی طالب: ۳/۳۰۴۔
[4] کشف الغمۃ: ۱/۴۴۰۔
[5] یوم الطف، ص: ۱۸۸۔
[6] الارشاد، ص: ۱۸۶۔
[7] مناقب آل ابی طالب: ۳/۳۰۴۔
[8] اعلام الوری، ص: ۲۰۳۔
[9] کشف الغمۃ: ۱/۴۰۴۔
[10] منتہی الآمال: ۱/۵۲۶، ۵۲۷۔
[11] حیاۃ الامام الحسین: ۳/۲۶۲۔
[12] یوم الطف، ص: ۱۷۵، ۱۷۹۔
[13] مظالم اہل البیت، ص: ۲۵۷۔
[14] الارشاد، ص: ۱۸۶، ۲۴۸۔
[15] اعلام الوری، ص: ۲۱۲۔
[16] کشف الغمۃ: ۱/۵۷۵، ۵۸۰۔
[17] منتہی الآمال: ۱/۵۲۶۔
[18] حیاۃ الامام الحسین: ۳/۲۵۴۔
[19] یوم الطف، ص: ۱۶۷۔
[20] مظالم اہل البیت، ص: ۲۵۸۔
[21] الارشاد، ص: ۱۹۷۔
[22] اعلام الوریٰ، ص: ۱۱۲۔
[23] مظالم اہل البیت، ص: ۲۵۴۔