کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 22
حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا کوفہ جانے کا ارادہ، صحابہ و تابعین کی انہیں نصیحتیں اور ان کے کوفہ جانے کے بارے میں صحابہ و تابعین کی رائے ۱۔کوفہ روانگی کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عزم: کوفہ کے سرکردہ لوگوں کی طرف سے خطوط کی آمد کے بعد جن میں ان سے جلد از جلد کوفہ آنے کا مطالبہ کیا گیا تھا انہوں نے صورت حال سے آگاہ ہونے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے عم زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ اصل حالات سے آگاہ ہو کر انہیں تحریری طور پر ان سے آگاہ کریں اور اگر ان کے بیانات درست ہوں تو وہ کوفہ چلے آئیں گے۔[1] مسلم بن عقیل عبدالرحمن بن عبداللہ ارجی، قیس بن مسہر صیداوی اور عمارہ بن عبید سلولی کے ساتھ کوفہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ جب مسلم مدینہ منورہ پہنچے تو انہوں نے دو راستہ دکھانے والے اپنے ساتھ لے لیے جن میں سے ایک کوفہ کے راستے میں پیاس کی شدت کی وجہ سے ہلاک ہو گیا۔ چونکہ مسلم بن عقیل کو ان مشکلات کا بخوبی احساس ہو گیا تھا جس کا انہیں کوفہ میں سامنا کرنا پڑ سکتا تھا لہٰذا انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو انہیں واپس بلانے کی درخواست پر مشتمل خط لکھا مگر انہوں نے ان کے اس مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے انہیں کوفہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھنے کا حکم دیا۔[2] جب مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو مختار بن ابی عبید کے مکان پر اترے۔[3] مگر جب ابن زیاد نے کوفہ کی امارت سنبھالی اور وہ لوگوں پر تشدد کرنے لگا تو مسلم بن عقیل ہانی بن عروہ کے پاس منتقل ہو گئے۔ جب انہیں یہاں بھی ابن زیاد سے خطرہ محسوس ہوا تو انتہائی مختصر عرصہ کے لیے ایک سرگرم شیعہ مسلم بن عوسجہ اسدی کے پاس ٹھہرے رہے۔[4] جب اہل کوفہ کو مسلم بن عقیل کی آمد کی خبر ملی تو وہ ان کی طرف دوڑے چلے آئے اور بارہ ہزار کوفیوں نے ان سے بیعت کر لی،[5] جب مسلم بن عقیل کو حسین رضی اللہ عنہما اور ان کی کوفہ آمد میں لوگوں کی دلچسپی کا یقین ہو گیا تو انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ تمام اہل کوفہ آپ کے ساتھ ہیں ، آپ میرا خط پڑھتے ہی اِدھر چلے آئیں ۔[6] خط پڑھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اہل کوفہ کے ارادوں کی سچائی کا یقین ہو گیا اور جیسا کہ کوفہ والوں نے اس سے قبل انہیں بتایا تھا کہ ان کا کوئی امام نہیں ہے،[7] لہٰذا اب ان کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ چنانچہ آپ نے اہل کوفہ کے نام خط لکھا:
[1] تاریخ الطبری: ۶/۳۰۴۔ البدایۃ و النہایۃ: ۱۱/۴۹۴۔ [2] تاریخ الطبری: ۶/۲۷۳، ۲۷۴۔ [3] الفقہاء و الخلفاء، ص: ۲۳۔ [4] تاریخ طبری نقلا عن الفقہاء و الخلفاء، ص: ۲۵۔