کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 21
حکمران کے طور پر پیش کرنے سے عبارت ہے اور یہ وہ چیز ہے جسے فقہائے کرام امام کے خلاف خروج سے تعبیرکرتے ہیں اس جگہ اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ عراق روانگی سے قبل کئی مہینوں تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے، وہ اس طرح کہ آپ تین شعبان ۶۰ ہجری کو مکہ مکرمہ تشریف لائے اور اسی سال آٹھ ذوالحجہ کو عراق کے لیے روانہ ہوئے۔[1] اس دوران میں آپ اہل عراق سے خط و کتابت کرتے رہے اور مختلف وفود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے، اسی دوران میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ظلم کا مقابلہ کرنا اور منکر کا خاتمہ کرنا ضروری ہو چکا ہے اور یہ ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ عراق میں ان کے شیعہ ان سے رابطے میں تھے اور ان کے درمیان مراسلت کا سلسلہ جاری تھا۔[2] حسین رضی اللہ عنہ کے نقطہ نظر سے یزید نے حکومت کے بارے میں حدود اللہ کا التزام نہیں کیا اور یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے منہج کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے فتویٰ کی بنیاد شرعی منطق کے تسلسل پر رکھی اور وہ یہ کہ یزید کی عدالت و صلاحیت میں شک ان پر عدم بیعت کو واجب قرار دیتا ہے۔ چونکہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہیں کر رکھی تھی اور ان کا شمار علمائے امت اور ساداتِ امت میں ہوتا ہے لہٰذا وہ حدود اللہ کے قیام کا زیادہ حق رکھتے ہیں ۔ اس بنا پر ان کا موقف امام کے خلاف خروج نہیں بلکہ برائی کا خاتمہ، باطل کا مقابلہ اور حکم کو صحیح اسلامی راہ پر نئے سرے سے چلانا کہلائے گا۔[3] اس امر کی دلیل کہ حسین رضی اللہ عنہ اس بات کے حریص تھے کہیزید کی حکومت کے مقابلہ میں ان کا فتویٰ اور سیاسی سرگرمیاں اسلامی تعلیمات و قواعد سے ہم آہنگ تھیں ان کا یزید کے ساتھ مقابلہ کرنے کے عزم کے وقت مکہ مکرمہ میں قیام سے انکار تھا تاکہ اس کی حرمت پامال نہ ہو اور وہ خوں ریزی اور قتل و قتال کے لیے میدان جنگ نہ بنے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: ’’اگر مجھے فلاں فلاں جگہ قتل کر دیا جائے تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ مجھے مکہ میں قتل کیا جائے اور میری وجہ سے اس کی حرمت کو پامال کیا جائے۔‘‘[4]
[1] انساب الاشراف: ۳/۱۵۲۔ مواقف المعارضۃ، ص: ۱۸۰۔ [2] ایضا، ص: ۱۸۰۔ [3] الفقہاء و الخلفاء، ص: ۲۱۔ [4] مسلم، رقم الحدیث: ۱۸۵۱۔ [5] الفقہاء و الخلفاء، ص: ۲۲۔