کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 20
پاسداری کی۔[1] مگر ان کی وفات کے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی۔ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے کوئی ایسی بیعت نہیں کی تھی جو ان کے لیے سمع و طاعت کو واجب قرار دیتی، اس کی دلیل والی مدینہ ولید بن عتبہ کی طرف سے حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بیعت لینے کی کوشش تھی، مگر وہ دونوں مکہ مکرمہ چلے گئے اور والی مدینہ ان سے بیعت لینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔[2] حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف اور اموی حکومت کے خلاف ان کا فتویٰ دو مراحل سے گزرا۔ پہلا مرحلہ (یزید کی عدم بیعت اور ان کے مکہ جانے کا مرحلہ): … اس مرحلہ میں حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی حکومت کے بارے میں اپنے سیاسی موقف کی بنیاد رکھی جو بنو امیہ کی حکومت کے بارے میں ان کے نقطہ نظر پر مبنی تھا۔ ان کے نزدیک یزید کی بیعت کا کوئی جواز نہیں تھا، جس کی ایک وجہ شخصی اور دوسری سیاسی تھی۔ شخصی حوالے سے حسین رضی اللہ عنہ اس سے افضل بھی تھے اور اس سے زیادہ منصب خلافت کے حق دار بھی۔ اس لیے کہ وہ علم و صلاح اور کفاء ت میں اس سے بڑھ کر تھے اور یزید سے کہیں زیادہ لوگوں میں مقبول بھی تھے۔ جہاں تک سیاسی وجہ کا تعلق ہے تو شوریٰ کی شرط معدوم تھی اور اموی حکومت کے تسلط کا خطرہ تھا اور یہ سب کچھ حکومت کے بارے میں اسلامی منہج کے خلاف تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم سے بخوبی آگاہ تھے کہ: ’’جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہوئی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[3] مگر ان کے نزدیک یہ حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو منصب خلافت کی صلاحیت و اہلیت رکھتا ہو اور وہ مسلمانوں کی مشاورت سے منتخب ہوا ہو۔[4] حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یزید کی عدم بیعت کے معنی یہ تھے کہ اموی حکومت شرعی اور قانونی جواز سے محروم ہے۔ جس کے اموی حکمران بڑی شدت کے ساتھ حریص تھے۔ یزید نے مدینہ منورہ میں اپنے والی کے نام حسین، ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے بیعت لینے کے لیے لکھا اور یہ بھی کہ اگر اس کے لیے سختی کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔[5] دوسرا مرحلہ:… یہ مرحلہ اموی حکومت کے خلاف عملی اقدامات کرنے اور اپنے آپ کو متبادل
[1] سنن ترمذی ۵/۶۵۶، رقم الحدیث: ۳۷۶۸۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں اسے صحیح کہا ہے: ۲/۴۴۸۔ [2] مواقف المعارضۃ، ص: ۱۸۰۔ [3] مواقف المعارضۃ، ص: ۲۴۰۔ [4] الصواعق المرسلۃ: ۲/۲۹۹۔