کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 19
۳۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن اور حسین رضی اللہ عنہما نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں ۔‘‘[1] حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے فضائل و مناقب میں اور بھی کئی احادیث وارد ہیں ۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کے اسباب اور وہ فتویٰ جس پر ان کا خروج مبنی ہے: سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما یزید کی بیعت کے بارے میں مخالفانہ موقف رکھتے تھے اور جس میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی شریک تھے اور اس کا سبب ان کا اس امر پر حریص ہونا تھا کہ اسے شوریٰ پر چھوڑ دیا جائے اور منصب خلافت پر امت کے کسی نیک اور صالح فرد کا تقرر کیا جائے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی طرف سے اس شدید مزاحمت نے بعد ازاں عملی شکل اختیار کر لی۔حسین رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کے بھی خلاف تھے البتہ انہوں نے اپنے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کی وجہ سے اسے قبول فرما لیا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کے ساتھ مسلسل رابطہ میں تھے اور انہوں نے ان سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد معارضہ کا وعدہ کر رکھا تھا، ہمارے اس موقف کی دلیل یہ ہے کہ ان کی وفات کے فوراً بعد اہل کوفہ کے زعماء نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ خط و کتابت شروع کر دی اور ان سے فوراً کوفہ روانگی کا مطالبہ کیا۔[2] حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں : ۱۔ ارادۂ اللہ عزوجل:… اللہ رب کائنات جس چیز کا ارادہ کرے وہ ہو کر رہتی ہے ۔ اس کے حکم اور قضاء و قدر کو ردّ نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ اپنے حکم کو نافذ کر کے رہتا ہے اگرچہ سب کے سب لوگ اس کے روکنے پر اتفاق کر لیں ۔[3] ۲۔ اقتدار کو شوریٰ سے موروثی بادشاہت میں تبدیل کرنا:… امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جن شرائط پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا وہ ان کے التزام سے قاصر رہے، ان میں سے بقول ابن حجر ہیثمی یہ تھی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمانوں کی خلافت کا مسئلہ ان کی مشاورت سے حل کیا جائے گا۔[4] حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نزدیک امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کرنے کی کوشش کرنا انتقال اقتدار کے بارے میں منہج، اسلام کے مطابق نہیں تھا ، مگر اس کے باوجود انہوں نے ان کے خلاف خروج کرنے کا نہیں سوچا تھا اس لیے کہ وہ ان سے خلافت کی بیعت کر چکے تھے اور انہوں نے اس عہد کی
[1] سیر اعلام النبلاء: ۲/۲۸۰۔ الاصابۃ: ۱/۳۳۱-۳۳۴۔ [2] فضائل الصحابۃ امام احمد: ۲/۷۷۲۔ اس کی سند حسن ہے۔ [3] بخاری، رقم الحدیث: ۳۷۵۳۔