کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 187
جب مسلم کو ان کے ساتھیوں نے چھوڑ دیا اور ان کا دشمنوں سے سخت ترین مقابلہ ہوا تو ان کا ایک نہایت بزرگ و برتر مقام و مرتبہ تھا اور ان کا ایک عظیم معاملہ تھا کہ اوپر نیچے دائیں بائیں سے دشمنوں نے چاروں طرف سے انہیں گھیر لیا، اور وہ اکیلے تن تنہا ان کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے تھے۔ نہ کوئی حمایتی نہ مددگار تھا مگر ان کے کوہِ استقامت میں ذرا لغزش نہ آئی اور ان کے صبر و حوصلہ کے ماتھے پر شکن تک نہ پڑی۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔‘‘[1] مسلم بن عقیل کے قتل کی خوفناک خبر: عباس قمی لکھتا ہے: ’’مسلم کو بھیج کر حسین( رضی اللہ عنہ ) انتظار کرنے لگے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے اپنے نوجوانوں سے کہا: ’’پانی زیادہ لے لو، اور نکل چلو، جب یہ لوگ زبالہ پہنچے تو انہیں عبداللہ بن یقطر کی خبر پہنچی۔ آپ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا، ان کے سامنے، آنے والا خط کھولا اور پڑھ کر سنایا۔ خط کی عبارت یہ تھی: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم اما بعد! ہمیں یہ جگر پاش خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر کو قتل کر دیا گیا ہے، ہمارے شیعوں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ اب تم میں سے جو بھی لوٹنا چاہے وہ لوٹ جائے اور اس پر کوئی ملامت نہیں ۔‘‘ یہ سن کر جو لوگ تو مالِ غنیمت اور جاہ و منصب کی حرص میں ساتھ لگے ہوئے تھے، متفرق ہو گئے، حتیٰ کہ آپ کے ساتھ صرف آپ کے اہل بیت اور وہی لوگ رہ گئے جو پورے ایمان اور یقین کے ساتھ آپ کے ساتھ نکلے ہوئے تھے۔‘‘[2] سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا عراق کی طرف خروج: سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے عراق کی طرف خروج کو اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ خروج مختلف الاطراف فتنہ کے مقدمات میں سے ایک مقدمہ تھا، جس کے جال کے تار و پود ہر جانب پھیلے ہوئے تھے اور اس کی آگ کی لپٹوں نے متعدد معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوا تھا۔ یہ فتنہ اس قدر دقیق اور زیر زمین تھا کہ اس کی پشت پر کارفرما خفیہ ہاتھ دکھائی اور سجھائی نہ دیتا تھا۔ پھر اس قدر پے درپے واقعات رونما ہوتے چلے گئے کہ سچ کو جھوٹ سے جدا کرنے کی کسی کو مہلت ہی نہ مل سکی۔ کیونکہ حالات نہایت
[1] فاجعۃ الطف، ص: ۷۔ قریب قریب یہی مضمون ’’تظلم الزہرا، ص: ۱۴۹‘‘ میں بھی مذکور ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: سفیر الحسین مسلم بن عقیل، ص: ۵۰ و ما بعدہا، و ص: ۱۱۳۔ عبدالحسن نور الدین العاملی کہتا ہے: ’’لوگ متفرق ہونا شروع ہو گئے۔ ایک عورت اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کے پاس آتی اور کہتی: لوٹ جاؤ لوگ تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور آدمی اپنے بیٹے اور بھائی کے پاس آ کر کہتا کہ کل جب شامی لشکر آ پہنچے گا تو حرب و شر کا کیا کرو گے؟ اس لیے لوٹ چلو، اور اسے ساتھ لے کر چلتا بنتا۔ غرض لوگ ایک ایک کر کے متفرق ہوتے رہے حتیٰ کہ مغرب کی نماز میں مسجد میں مسلم بن عقیل کے ساتھ صرف تیس آدمی رہ گئے۔ جب مسلم نے دیکھا کہ اب ان کے ساتھ صرف یہی لوگ رہ گئے ہیں تو مسجد سے نکل کر ابوابِ کندہ کی طرف چلے۔ جب ابواب کندہ پہنچے تو صرف دس آدمی ساتھ رہ گئے اور جب ابواب کندہ سے نکلے تو ساتھ ایک آدمی بھی نہ تھا۔ ‘‘ (مأساۃ احدی و ستین، ص: ۲۷)