کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 181
ان کے لیے کسی کے بھی خون سے ہاتھ رنگنا کوئی مشکل کام نہ تھا اور ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ ان کوفی رافضیوں نے بلاتردد آل بیت رسول کے متعدد چراغ ایک ہی دن میں گل کر دئیے۔ اس لیے امت مسلمہ کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ شاید اس سے ہم اپنا حال درست کر سکیں ۔ لیکن آج ہے کوئی جو صحیح تاریخ سے سب سیکھے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ ترویہ کے دن مکہ سے روانہ ہوئے۔ بے شمار صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کو روکنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ جن میں سیّدنا ابن عمر، سیّدنا ابن عباس، سیّدنا ابن زبیر، سیّدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہم جیسے رفیع الشان اور جلیل القدر صحابہ کرام کے اسمائے گرامی آتے ہیں ۔ جبکہ خود آپ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے بھی روکنے اور سمجھانے کی بے حد کوشش کی۔ لیکن سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما خروج کا عزمِ مصمم کر چکے تھے، اسی لیے آپ نے کسی کی بھی بات کو نہ مانا۔ گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ مسلم بن عقیل نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر مطلع کیا کہ کوفہ میں آپ کے بے شمار مؤیدین ہیں اور ساتھ ہی اس بات کی ترغیب بھی دی کہ بس اب جلدی سے چلے آئیے۔ چنانچہ خط ملتے ہی سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے چلنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں ۔ لیکن ابھی آپ کوفہ نہ پہنچے تھے کہ اثنائے طریق میں آپ کو مسلم بن عقیل کا دوسرا خط ملا جس میں صاف لکھا تھا کہ کوفہ مت آئیے اور جدھر سے آئے ہیں ادھر ہی کو لوٹ جائیے۔ اس خط کا مضمون یہ تھا: ’’اپنے اہل بیت کو لے کر لوٹ جائیے تاکہ یہ کوفی آپ کو دھوکہ نہ دے سکیں ۔ یہ آپ کے والد ماجد کے وہی ساتھی ہیں جن کے بارے میں ان کی شدید تمنا تھی کہ موت یا شہادت آ کر انہیں ان لوگوں سے جدا کر دے۔ اہل کوفہ نے میرے اور آپ دونوں کے ساتھ دروغ بیانی سے کام لیا ہے اور دروغ گو کی کوئی رائے نہیں ہوا کرتی۔‘‘[1] جب مسلم بن عقیل گرفتار کر لیے گئے اور ان کے قتل کر دئیے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا تو انہوں نے عمر بن سعد سے اس بات کی درخواست کی کہ وہ ایک وفد بھیج کر سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے ساتھ بیتنے والے جملہ واقعات کی خبر دے دیں ۔ چنانچہ مسلم بن عقیل نے ابن زیاد سے یہ کہا: ’’مجھے وصیت کرنے دیجیے۔‘‘ ابن زیاد نے کہا ٹھیک ہے، مسلم نے عمر بن سعد بن ابی وقاص کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور یہ کہا: ’’مجھے تم سے ایک کام ہے، تیرے اور میرے درمیان قرابت داری ہے۔‘‘ پھر عمر بن سعد کے پاس جا کر کہا: ’’اے صاحب! یہاں تمہارے اور میرے سوا تیسرا کوئی قریشی نہیں اور حسین( رضی اللہ عنہ ) تم لوگوں کے پاس پہنچنے والے ہیں ۔ ان کی طرف پیغام بھیج دو کہ وہ لوٹ
[1] ان کو الدیلی بھی کہا جاتا ہے۔ بصرہ کے قاضی تھے۔ نام ظالم بن عمرو تھا۔ یہی مشہور روایت ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابی بن کعب، حضرت ابن مسعود، حضرت ابو ذر اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم سے حدیث کی روایت کی۔ سیّدنا عثمان اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہما سے قرآن پڑھا۔ جبکہ خود ان کے بیٹے ابو حرب اور نصر بن عاصم، حمران بن اعین اور یحییٰ بن یعمر نے ان سے قرآن پڑھا۔ ان سے روایت کرنے والوں میں یحییٰ بن یعمر، عبداللہ بن بریدہ، عمر مولیٰ غفرہ اور ان کے اپنے بیٹے ابو حرب کا نام آتا ہے۔ احمد عجلی کہتے ہیں : ابو الاسود ثقہ ہیں ۔ علم نحو میں سب سے پہلے کلام انہوں نے ہی کیا تھا۔ واقدی کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ جنگ جمل کے دن جناب علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کر رہے تھے۔ ابو الاسود کا شمار سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ان خواص میں ہوتا تھا جو عقل و رائے میں کمال کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں علم نحو کے بنیادی قواعد کو وضع کرنے کا حکم دیا۔ جب ابو الاسود نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو لکھے قواعد دکھائے تو انہوں نے فرمایا: اے ابو الاسود! تم نے کس قدر عمدہ قواعد وضع کیے ہیں اور ان قواعد کو ’’نحو‘‘ کا نام دیا۔ ایک قول یہ ہے کہ ’’ابو الاسود نے عبداللہ کو تعلیم دی۔‘‘ بیان کیا جاتا ہے کہ ابو الاسود جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس وفد بن کر حاضر ہوئے تو انہوں نے ابو الاسود کو اپنے قریب کیا اور انہیں عظیم تحائف سے نوازا۔ ان کا مشہور شعر یہ ہے: و ما طلب المعیشۃ بالتمنی و لکن الق دلوک فی الدلاء تجیء بمثلہا طورا و طورا و تجیء بحمأۃ و قلیل ماء ’’روزی تمنا سے نہیں ملتی۔ البتہ تو بھی دوسرے ڈولوں کے ساتھ اپنا ڈول ڈال دے۔ اکثر تو وہ ایک جیسا نکلے گا (کہ دوسروں کی طرح پانی بھر کر ہی لائے گا) اور کبھی گارے اور تھوڑے پانی کے ساتھ آئے گا۔‘‘ (تاریخ الاسلام للذہبی: ۲/۱۲۲)