کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 178
’’اما بعد! بے شک قافلہ کا رہنما قافلہ والوں سے جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ جان لیجیے کہ اٹھارہ ہزار کوفیوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ میرا خط ملتے ہی جلدی آ جائیے، سب لوگ آپ کے ساتھ ہیں ۔‘‘[1] سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جیسے ہی خط پہنچا انہوں نے کوفہ روانگی کی تیاریاں شروع کر دیں ۔اس روایت کو پڑھ کر دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔ یا تو یہ روایت جھوٹی ہے کہ اتنے لوگوں نے بیعت نہ کی تھی اور اتنی تعداد دراصل سبائی کوفیوں کی اس مکارانہ سازش کا نتیجہ تھی تاکہ حسین رضی اللہ عنہ کو مکہ سے نکال کر دشمنوں کے حوالے کیا جا سکے۔ یا پھر یہ تعداد صحیح ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ان کوفیوں کے دل سیّدنا حسین بن علی الہاشمی رضی اللہ عنہما کی محبت سے خالی تھے۔ دراصل یہ لوگ فتنہ بھڑکانا چاہتے تھے اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے۔ انہیں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے صحیح عقیدہ اور تمسک بالدین سے کوئی غرض نہ تھی وہ اسی دین ہی کو تو برباد کرنا چاہتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ مسلم بن عقیل نے خروج کر کے ابن زیاد کے قصر ولایت کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن جیسے ہی اہل کوفہ کو اس بات کا علم ہوا کہ ابن زیاد نے ہانی بن عروہ کو گرفتار کر لیا ہے اور وہ انہیں شامی لشکروں سے خوف زدہ کر رہا ہے تو ایک ایک کر کے کوفی مسلم بن عقیل کے پاس سے تتر بتر ہونے لگے اور ابھی آفتاب غروب بھی نہ ہوا تھا کہ مسلم بن عقیل تنہا رہ گئے۔ موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے ابن زیاد نے انہیں گرفتار کر کے قتل کر دینے کا حکم دے دیا۔ مسلم بن عقیل کا قتل اگر ایک طرف ابن زیاد کی حکومت کے استحکام اور کوفہ کے امن کے لیے ضروری تھا جو اس قتل کا مثبت پہلو ہے تاکہ لوگ اس قدر مرعوب ہو جائیں کہ کسی کو پھر خروج کی ہمت نہ ہو۔ جبکہ دوسری طرف یہی قتل ابن عقیل اور ان کو بھیجنے والے کے مقام و مرتبہ سے شدید ترین بے اعتنائی اور غفلت کا باعث تھا ابن زیاد جیسے احمق اور پرلے درجے کے بد باطن حکمت و مصلحت پر نظر نہ رکھ سکے اور انہیں قتل مسلم بن عقیل کے عواقب کا ذرا ادراک نہ ہو سکا۔ ابن زیاد اور اس کے کوفی مشیرِ کار گہری دینی بصیرت اور آل بیت کے احترام اور عقیدت کی فقہ سے یکسر محروم تھے۔ ابن زیادہ حماقت کے خچر پر سوار اور غرور و نخوت کی تلوار سونتے ہوئے تھا۔ حق پژوہی سے بے بہرہ اس شخص نے اقتدار کے نشے میں ابن عقیل کے خون سے ہاتھ رنگنے کا حکم دے دیا۔ ابن زیاد اجڈ کوفیوں جیسا نکلا جیسے کوئی جفا کار ڈاکو جو قافلہ لوٹتے وقت مسافرانِ طریق کی بے بسی و بے سروسامانی کا مطلق خیال نہیں کرتا۔ یہ تھا ابن زیاد کی اندھی اور دین و عقل اور حکمت و بصیرت سے خالی سیاست کا منتہائے نظر، جس نے
[1] منتہی الآمال: ۱/۴۳۰۔ اللہوف، ص: ۲۲۔ المجالس الفاخرۃ، ص: ۵۸۔ [2] تاریخ دمشق: ۱۴/۳۱۳۔ابن صلاح سے جب یزید کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہا: ’’ہمارے نزدیک یہ بات صحیح اور ثابت نہیں کہ اس نے قتل حسین کا حکم دیا ہو۔ محفوظ یہ ہے کہ یہ ناپاک حکم عبیداللہ بن زیاد نے دیا تھا جو عراق کا والی تھا۔ رہا یزید کو گالیاں دینا یا اس پر لعن طعن کرنا تو یہ کام مومنوں کو زیبا نہیں ۔ چاہے یہ ثابت بھی ہو جائے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو یزید نے ہی قتل کیا تھا یا ان کے قتل کا حکم دیا تھا۔ قاتل حسین قتل حسین رضی اللہ عنہ کے ارتکاب کی بنا پر کافر نہ کہلائے گا۔ البتہ ایسا شخص گناہ گار ضرور ہے۔ قتل کرنے سے کافر وہی بنتا ہے جو رب کے کسی پیغمبر کو قتل کرے۔ (الصواعق المحرقۃ: ۲/۶۳۹) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مومن کو لعنت کرنے والا اس کے قتل کرنے والے کی طرح اور جو کسی مومن کو کافر کہے وہ اس کے قاتل کی طرح ہے۔‘‘ (السنن لترمذی، رقم الحدیث: ۲۶۳۶) یہ حدیث صحیح ہے۔