کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 172
اور آج تک چکا رہی ہے اور چکاتی رہے گی الا ان یشاء اللّٰہ!!! یہ امر اس وقت امت مسلمہ کے غموں کو اور زیادہ کر دیتا ہے اور اس کے زخموں پر نمک پاشی کا کام دیتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں عام لوگوں کو اس بات کا ادراک تک نہیں کہ ان رسوم کے پس پردہ روافض کے گھناؤ نے مقاصد کیا ہیں اور صدیوں سے چلی آتی ان رسموں کی بابت انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ یہ سب خرافات خود سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے عقیدہ اور آپ کے نانا سیّد اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے سخت خلاف ہیں اور مصیبت بالائے مصیبت یہ ہے کہ بعض ان قاتلین حسین رضی اللہ عنہ سے حسن ظن بھی رکھتے ہیں ، بے شک ایسے لوگ امت مسلمہ کے لیے ان قاتلوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں ۔ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے والے تھے، انہوں نے جو کچھ بھی کیا نیک نیتی کے ساتھ اور اپنے علم و اجتہاد کے مطابق کیا۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’جس نے دنیا کے لیے ہم سے محبت کی تو دنیا والوں سے نیک و بد ہر قسم کے لوگ محبت کیا ہی کرتے ہیں اور جس نے اللہ کے لیے ہم سے محبت کی تو وہ اور ہم قیامت کے دن یوں ہوں گے۔‘‘ پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیان انگلی کو ملا کر دکھایا۔[1] خود سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بیان کردہ قاعدے سے یہ معلوم ہو گیا کہ آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنا اور آل بیت رسول اور بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنا ہے اور آل بیت رسول سے اور بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے بغض کی علامت ان باتوں سے بغض رکھنا ہے جن کی خاطر ان مقدس ہستیوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ جی ہاں ! وہ کتاب و سنت کا منہاج اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت پر چلنا ہے۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں : ’’ہم علی بن حسین( رضی اللہ عنہما ) کی خدمت میں بیٹھے تھے، اتنے میں اہل کوفہ کے چند لوگ آئے اور علی بن حسین( رضی اللہ عنہما ) نے ان سے یہ ارشاد فرمایا: ’’اے اہل عراق! ہم سے وہ محبت کرو جو اسلام کا مقتضا ہے، میں نے اپنے والد ماجد کو یہ کہتے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! مجھے میرے مرتبہ سے زیادہ مت بڑھاؤ ، بے شک رب تعالیٰ نے پیغمبر بنانے سے پہلے مجھے (اپنا) بندہ بنایا ہے۔‘‘[2]
[1] چنانچہ جب حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس احمق کے پاس گئے اور اسے نصیحت کرتے ہوئے یہ فرمایا: ’’اے میرے بیٹے! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے: ’’بدترین چرواہے وہ ہیں جو بے حد بے درد اور ظالم ہوں (یعنی بدترین حکمران وہ ہیں جو بے رحم اور سنگ دل ہوں ) تم ان جیسا بننے سے بچنا۔‘‘ اس کے جواب میں اس احمق نے یہ کہا: بیٹھ جائیے! آپ تو اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوسی (یعنی چھانن) ہیں ۔ حضرت عائذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’کیا ان کی بھوسی بھی تھی؟ بھوسی تو ان کے بعد کے لوگ ہیں اور جو غیر صحابی ہیں ۔‘‘ اس احمق کی مراد یہ تھی کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علماء و فضلاء اور اہل مراتب میں سے نہیں ، بلکہ آپ ان سے کم درجہ کے ہیں ۔ جس کے جواب میں حضرت عائذ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب ابرار و اخیار اور امت کے سادات تھے اور اپنے بعد کے سب لوگوں سے افضل تھے۔ یہ روایت ’’صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۱۸۳۰‘‘ میں مروی ہے۔ یاد رہے کہ جو بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس ہستیوں پر طعن کرتا ہے وہ عبیداللہ بن زیاد جیسا احمق اور مغرور ہے جس کو اپنے کسی قول و فعل کی ذرا پروا نہ ہو۔