کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 159
دراصل وہی آل بیت کا دشمن، میراث نبوت پر حاسد اور دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بدلنے کے درپے ہے۔ ان حضرات نے امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ اور اعلان کیا لیکن عملی طور پر ان کے عقیدہ و عمل کی مخالفت کی، انہیں آزردہ کیا، ان پر بددعا کی، حتیٰ کہ ان کے قتل تک کی سازش کی۔ حیرت کی بات ہے کہ اس سب کے باوجود یہ اعدائے صحابہ آج تک آل بیت سے محبت کا دعویٰ اور ان کی سیرت کی مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ ان لوگوں (اہل کوفہ) نے مدائن کے قریب ’’ساباط‘‘ کے مقام پر سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو بھی دھوکے سے قتل کرنے کی سازش کی لیکن رب تعالیٰ نے انہیں بچا لیا۔ اسی لیے سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے نہایت تیزی کے ساتھ ان کے مکر و فریب کے بنے جالوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا اور امت کی وحدت اور شیرازہ بندی کے لیے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی اور خلافت سے دست بردار ہو کر ان کے ناپاک ارادوں کو پیوند خاک کردیا۔ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان لوگوں نے یہی منکوس و معکوس رویہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنائے رکھا۔ چنانچہ ان لوگوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنی محبت و وفاداری کو ظاہر کیا۔ جب انہیں ان لوگوں کی صداقت کا یقین ہو گیا اور آپ ان کے کہنے پر کوفہ پہنچ گئے تو ان لوگوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور آپ پر دشمنوں کو قابو دے دیا اور بالآخر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اس کوفی لشکر کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کر گئے جس میں ایک بھی شامی نہ تھا۔ آلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے اس شرم ناک غداری کرنے، دشمنوں کے حوالے کرنے، مصیبت میں مدد نہ کرنے اور میدانِ کربلا میں آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو بے یار و مددگار چھوڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کوفیوں یعنی اعدائے صحابہ کے حصہ میں دنیا و آخرت کی لعنت آئی۔ جبکہ دوسری طرف ان شرم ناک افعال کے برملا ارتکاب کے باوجود یہ کوفی آج تک تقیہ کی چادر اوڑھے آلِ بیت سے محبت کا شور مچائے ہوئے ہیں اور اسی شور و غل کی آڑ میں ان مقدس ہستیوں کے عقائد اور سیرت کو مسخ کر رہے ہیں ۔ بے شک اہل کوفہ نے سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دھوکہ سے قتل کیا، سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی کوشش کی اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے بے پناہ مکر و فریب اور نفرت و کینہ کا ارتکاب کیا حتیٰ کہ انہیں اپنے ہی لشکر کے ہاتھوں شہید کروا دیا۔ مناسب ہے کہ اس موقعہ پر کوفہ اور شیعیت پر بھی شیعی مآخذ و مصادر سے روشنی ڈال دی جائے جس میں یہ واضح کیا جائے کہ اہل بیت اور آل بیت کے ساتھ شیعیت کا رویہ کن خطوط پر قائم رہا ہے:
[1] سنن ابن ماجہ: ۱۵۸۱۔کتب شیعہ یومِ عاشوراء کے روزہ کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں ۔ چنانچہ طوسی (الاستبصار: ۲/۱۳۴) میں اور الحر العاملی (وسائل الشیعۃ: ۷/۳۳۷) میں ابو عبداللہ کے واسطے سے ان کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’محرم کی نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھو کہ یہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘ ان نصوص پر عمل کہاں ہے؟ اور حب آل بیت اب کہاں چلی گئی؟ کہ عاشوراء کے دن حب آل بیت کے نام پر ان جاہلی رسموں کا اہتمام تو کیا جاتا ہے جن کے ارتکاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، لیکن ان نصوص پر عمل نہیں کیا جاتا جنہیں خود شیعہ معتبر کتب بیان کرتی ہیں اور ان سب رسموں سے مقصود لوگوں کو سنت نبویہ اور آل بیت کے صحیح منہج سے ہٹانا ہے۔