کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 127
یہ وہ تربیتی مفاہیم و معانی ہیں جن کی اساس رب تعالیٰ کی عبودیت کے اخلاقیات پر ہے تاکہ ایک اسلامی معاشرہ عقیدۂ توحید اور اس کی مقاصد کی بنیادوں پر استوار و مستحکم ہو اور اس کے افراد کے مابین محبت و مودت کی بنیاد بھی صحیح عقائد پر ہو تاکہ ایک اسلامی معاشرہ فخر و غرور اور قطع تعلقی کے مظاہر سے کوسوں دُور ہو۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’رب تعالیٰ نے تم لوگوں سے جاہلیت کے عیب کو دُور کر دیا ہے اب یا تو مومن متقی ہے یا بدبخت فاجر ہے اور لوگ سب کے سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے ہیں ۔‘‘[1]
عقیقہ:
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں جناب حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنے بیٹے کی طرف ایک جانور عقیقہ میں قربان نہ کروں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں ، البتہ تم اس کے بال مونڈو اور ان کے وزن کے برابر چاندی محتاجوں اور مسکینوں پر صدقہ کر دو۔‘‘
حضرت شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : (حدیث میں مذکورہ لفظ) ’’اوفاض‘‘ (یعنی محتاجوں غریبوں ) سے مراد اہل صفہ ہیں ۔ چنانچہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا اور جب ان کے ہاں جناب حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو تب بھی ایسا ہی کیا تھا۔[2]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب حسن اور جناب حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک ایک مینڈھا قربان کیا۔[3]
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب حسن و حسین رضی اللہ عنہما میں سے ہر ایک کی طرف سے دو ایک جیسے ہم وزن مینڈھے عقیقہ میں قربان کیے۔[4]
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے دو مینڈھے عقیقہ میں قربان کیے۔[5] ایک اور روایت میں بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایسے ہی الفاظ مروی ہیں ۔[6]
[1] الادب المفرد: ۸۲۰۔ علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔
[2] الادب المفرد: ۸۱۷۔ علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔
[3] الادب المفرد للبخاری: ۸۲۱۔ علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔
[4] الموطأ : ۱۰۶۶۔ عَقِیْقَۃ: یہ عَقٌّ سے مشتق ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ عقیقہ اصل میں نومولود بچے کے سر کی چوٹی کے ان بالوں کو کہتے ہیں جن کے منڈوانے پر جانور کی قربانی دی جاتی ہے، یا ان بالوں کو عقیقہ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کو نومولود بچے کے سر پر سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ عقیقہ کرنا سنت ہے اور سنت یہ ہے کہ جانور ذبح کرنا، سر کے بال مونڈنا اور نام رکھنا یہ سب ساتویں روز کیا جائے۔ کیونکہ ولادت والے دن ہی یہ سب کام کرنے کی بابت کوئی روایت مروی نہیں ۔ (صحیح البخاری، باب العقیقۃ: ۵/۲۰۸۰)
[5] سنن الترمذی: ۱۵۱۴۔ قال الترمذی: حسن صحیح۔ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ (مسند احمد:۲۳۹۲۰)