کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 12
.
عرضِ ناشر
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر کے چالیسویں سال کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نذیر اور بشیر بنا کر قوم کے پاس بھیجا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت اور نبوت کا حق ادا کر دیا اور آپ کے رب نے آپ کو جس پیغام کے پہنچانے کا حکم دیا آپ نے اسے من و عن پہنچا دیا تاکہ آپ لوگوں کو کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر ایمان و اسلام کی روشنی میں لے آئیں ۔ آپ تیرہ (۱۳) سال تک مسلسل دعوت الی اللہ میں مکہ مکرمہ میں مصروف رہے۔ پھر اللہ نے آپ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا جسے اللہ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے منور کر دیا۔ آخر تکمیل دین کی آیت نازل ہوئی اور دین مکمل ہو گیا:
﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (المائدۃ: ۳)
’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا، پھر جو شخص بھوک کی کسی صورت میں مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ کسی گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘
پھر اس عظیم آیت کے نازل ہونے کے بعد ایک ایسا وقت امت اسلام پر آیا کہ مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اس قرآن کی آیت پر غور کیجیے:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ﴾ (آل عمران: ۱۴۴)
’’اور نہیں ہے محمد مگر ایک رسول، بے شک اس سے پہلے کئی رسول گزر چکے۔ تو کیا اگر وہ فوت ہو جائے، یا قتل کر دیا جائے تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے؟ اور جو اپنی ایڑیوں پر پھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد جزا دے گا۔‘‘
آسمان سے نازل ہونے والی آیات پوچھ رہی ہیں کیا تم صدموں کی وجہ سے اللہ کے دین سے نکل جاؤ