کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 904
خود رائی کو ترجیح دینا اور دوسروں کو جاہل گرداننا:
غلو پرستی کا ایک واضح ترین پہلو یہ بھی ہے کہ آدمی اپنی رائے کے لیے متعصب ہو اور دوسروں کی رائے کی ناقدری کرے، اگرچہ دوسرے کی رائے ہی میں حق و صواب موجود ہو، کم علمی، خود رائی، نفس پرستی اور خالی الذہن سے اپنی رائے منوانے کی ہوس ہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے کوئی شخص اپنی رائے کے لیے متعصب ہوتا ہے۔
ہم سے پہلے کے ادوار میں خود رائی اور نظری تعصب ہی کی آفت نے اپنے مریضوں کو موت کے گڑھوں میں دھکیلا، بھلا وہ کون سی چیز تھی جو ذوالخویصرہ جیسے نرے جاہل کو لے ڈوبی؟ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اس کی آفت بس یہ تھی کہ اس نے خود رائی کو ترجیح دی تھی، اگر معمولی توقف سے کام لیتا تو ضرور جان لیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے سے بڑھ کر کسی کی رائے نہیں۔ ذوالخویصرہ کے ہم خیالوں کو بھی خود رائی اور دوسروں کی بدگمانی نے بہکایا ہے۔ خوارج بھی عبادت گزار تھے، لیکن ان کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ علی سے زیادہ جاننے والے ہیں، یہی وہ مہلک بیماری تھی جس نے انھیں موت کے گھاٹ اتارا۔‘‘[1]
یہ بے چارے محدود چند الفاظ میں قید ہو کر رہ گئے جن کے معانی بھی اچھی طرح نہ سمجھ سکے اور نہ کسی سے پوچھا جو انھیں ان کا مطلب بتا دیتا، انھوں نے یہ روش محض اس لیے اپنائی تھی کہ بس اپنی ہی سمجھ کو وہ صحیح جانتے تھے، اور ان کے علاوہ باقی سب غلط سمجھتے تھے۔
محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں:
’’لفظ ’’ایمان‘‘ ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ اور ’’ظالمین سے تبرّا‘‘ کا خمار ان پر اس قدر چڑھا کہ انھوں نے ان ظاہری الفاظ کا سہارا لے کر مسلمانوں کا خون حلال کرلیا اور ہر جگہ قتل و غارت گری کو عام کیا۔‘‘[2]
اسی اندھے تعصب نے انھیں حق قبول کرنے سے روکے رکھا، حالانکہ حق ان کے سامنے حق واضح ہوچکا تھا، امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے ان سے مناظرہ کیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مناظرہ کیا، ان کے اعتراضات اور شبہات کا ازالہ کیا، ٹھوس دلا ئل سے انھیں مطمئن اور خاموش کیا، لیکن چند کے علاوہ بقیہ لوگ مطمئن نہ ہوئے اور بات نہ مانی اور مسلمانوں کی جان و مال حلال بھی سمجھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خودر ائی کو ترجیح دینا اور دوسروں کو جاہل گرداننا اسلام کے اہم اصول مثلاً شورائیت اور خیرخواہی کے خلاف ہے۔[3]
علماء و عاملین پر طعن و تشنیع:
موجودہ وقت ایک عجیب و غریب ماحول سے گزر رہا ہے، یعنی علمائے عاملین کے دبدبہ کو زیر کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، ان میں انحراف و گمراہی کے خنجر گھونپنے کی کوشش تیز ہے، یہ حملے بڑے زور دار ہیں، ڈائجسٹوں، مجلات، مقالات، کتب، لکچر ہالوں، درس گاہوں اور تعلیمی حلقوں میں ان حملوں کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔یہ اثرات اور
[1] الخوارج / ناصر العقل ص (130)۔
[2] الخوارج /ناصر العقل ص (129)۔