کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 895
بہرحال دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے یہ پرجوش نوجوان شرعی علوم اور اس کے لوازمات و تقاضوں کی علم و معرفت میں عوام ہی کے درجہ میں ہوتے ہیں اور اسی لاعلمی کی وجہ سے وہ علمائے دین سے سوال کرنے اور استفسار کرنے سے گریز کرتے ہیں اور نتیجہ میں فکری انتشار کی کڑوی فصل کاٹتے ہیں۔
صحیح کلمات کا غلط استعمال:
یہ ایک خطرناک آفت ہے جو اس سے محفوظ رہا وہ نجات پاگیا، ماضی میں یا آج جو لوگ بھی خوارج کے انتہا پسند نظرئیے کاشکار ہوئے ان کی غلطی ان کے دلائل اور استدال میں نہیں ہے بلکہ اصل غلطی اس کے بے جا تطبیق، اور مراد کی تعیین میں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب خوارج نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا اور ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ کہہ کر آپ پر کفر کی تہمت لگائی تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((کَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَ بِہَا الْبَاطِلُ)) یعنی کلمہ تو حق ہے لیکن اس کے ذریعہ سے ارادہ باطل کا ہے۔[1]
دور حاضر کے بعض مسلمان بھی اسی غلطی میں واقع ہیں اور صدق و عدل پر مبنی کلمات کی غلط تطبیق کرتے ہیں، پھر یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ وہ احکامات بیان کرنے میں نامناسب جرأت کرتے ہیں اور معتدل رائے سے نکل جاتے ہیں۔ انھیں کلمات میں سے ایک کلمہ ’’تقلید مذموم‘‘ بھی ہے۔ یہ الفاظ اپنی جگہ بالکل برحق ہیں، قرآن و سنت سے اس کی تائید ہوتی ہے اور ائمہ دین نے اس تقلید سے منع فرمایا ہے، لیکن ان الفاظ کے استعمال میں بعض لوگوں کے یہاں کچھ لغزشیں ضرور ہیں، اس لیے اس سے متعلق چند باتوں کی نشان دہی ضروری ہے تاکہ یہ الفاظ اپنے صحیح مقام پر مستعمل ہوں:
٭ وہ تقلید باطل اور مذموم ہے جس میں دوسرے کی بات بلا حجت و دلیل قبول کرلی جائے۔[2]
٭ اس آدمی کا مقلد ہونا مذموم ہے جسے اجتہاد پر قدرت حاصل ہے، لیکن جو اجتہادی صلاحیت سے محروم ہو اس کے لیے تقلید جائز ہے۔[3]
٭ متقدمین علماء کی کتب پڑھنا اور غیر جانب دار ہو کر ان کے آراء و اقوال سے استفادہ کرنا تقلید مذموم نہیں ہے، بلکہ طالب علم کے لیے یہی مناسب ہے کہ کسی مسئلہ میں حکم لگانے سے پہلے اپنے متقدمین علما کی آراء و خیالات پڑھ لے تاکہ انھیں کی روشنی میں کوئی فیصلہ دے۔[4]
عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جس شخص کو کسی مسئلہ میں علماء کے اختلاف کا علم نہ ہو اسے فتویٰ نہیں دینا چاہیے، ورنہ اپنے علم کے
[1] أعلام الموقعین (2/201) جامع بیان العلم و فضلہ (2/114)۔
[2] جامع بیان العلم و فضلہ (2/114، 115) تقلید غیر نبی کی بات کو بلا دلیل تسلیم کرلینے کو کہتے ہیں جیسا کہ مسلم الثبوت وغیرہ اصول فقہ کی کتب میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب وسنت میں کہیں بھی تقلید کا ذکر نہیں آیا ہے بلکہ اطاعت و اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ (النسائ:59)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٣﴾ (الاعراف:3)
’’اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔‘‘
لہٰذا ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری اتباع ہے خواہ وہ عالم ہو یا عامی، اگر براہ راست کتاب و سنت سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر علمائے حق کی طرف رجوع کرکے عمل کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٧﴾ (الانبیائ:7)
’’اگر تمھیں علم نہیں ہے تو علم رکھنے والوں سے دریافت کرلو ۔‘‘
سیدھی سادھی بات ہے، عدم علم کی صورت میں موجود علمائے حق کی طرف رجوع کرکے عمل کیا جائے، خود سے اجتہاد و استنباط نہ کیا جائے اور فتویٰ جاری کرنا نہ شروع کردے بلکہ جو فتویٰ کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی طرف رجوع ہو اور پھر اگر اس فتویٰ اور جواب کے خلاف کوئی آیت یا حدیث صحیح آجائے تو اس آیت و حدیث پر عمل پیرا ہو جائے۔ یہی سلف صالحین کا طرز عمل تھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((مَنِ اسْتَبَانَتْ لَہٗ سُنَّۃُ لِرَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم لَا یَحِلُ لَہٗ أَنْ یَّتْرُکَہَا بِقَوْلِ أَحَدٍ کَائِنًا مَنْ کَانَ۔))
جس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہوجائے تو اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ اسے کسی کے قول کی وجہ سے چھوڑ دے کسے باشد۔ یہ ہے سلف کا منہج جس پر اہل الحدیث ہمیشہ قائم رہے ہیں، یہی اعتدال کی راہ ہے فکری آوارگی اورتقلیدی جمود دونوں ہی افراط و تفریط کے راستے ہیں۔ اعتدال کی راہ ترک کرنے سے جہاں ایک طرف خروج و تکفیر کے فتنے جنم لیا وہاں تقلیدی جمود سے امت افتراق کا شکار ہوئی اور امت واحدہ کا تصور ہی جاتا رہا اور غیر نبی کو نبی کا مقام دے دیا گیا۔ (مترجم)