کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 855
ہے اس سے یہی خوارج مراد ہیں، اس لیے آپ نے ان کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو لڑائی پر خوب خوب ابھارا، ادھر خوارج سے متعلق احادیث رسول کی وجہ سے صحابہ اور علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں بھی ان کے خلاف لڑنے کے لیے جوش و خروش تھا، چنانچہ آپ اپنی فوج کو ان خوارج سے نبردآزما ہونے کے لیے جوش دلاتے ہوئے یہ حدیث سنا رہے تھے، اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
((یَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ اُمَّتِیْ یَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآَنَ لَیْسَ قِرَائَ تُکُمْ إِلٰی قِرَائَ تِہِمْ بِشَیْئٍ وَ لَا صَلَوَاتُکُمْ اِلٰی صَلَاتِہِمْ بِشَیْئٍ وَلَا صِیَامُکُمْ إِلٰی صِیَامِہِمْ بِشَیْئٍ یَقْرَئُوْنَ الْقُرْاٰنَ یَحْسَبُوْنَ أَنَّہٗ لَہُمْ وَ ہُوَ عَلَیْہِمْ لَا تُجَاوِزُ صَلوٰتُہُمْ تَرَاقِیَہُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الْإِسْلَامِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔))
’’میری امت سے ایک قوم نکلے گی، ان کی تلاوت قرآن کے آگے تمھاری تلاوت کچھ نہ ہوگی، ان کی نماز کے آگے تمھاری نماز کچھ نہ ہوگی، ان کے روزوں کے آگے تمھارے روزے کچھ نہ ہوں گے، وہ قرآن پڑھیں گے اور سمجھیں گے اس میں ہمارا فائدہ ہے حالانکہ وہ ان کا ضرر ہوگا، نماز ان کے گلوں سے نہ اترے گی۔ وہ اسلام سے ایسے ہی نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے۔‘‘
جو لشکر ان سے لڑنے جارہا ہے اگر وہ جان لے کہ بزبان رسول اس پر کتنا ثواب ہے تو بس اسی پر عمل کرے گا اس گروہ کی پہچان یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی ہے جس کے شانہ کے سر پر عورت کے سرِ پستان کی مثل ہے اور اس پر سفید رنگ کے بال ہیں، کیا آپ لوگ معاویہ اور اہل شام کی طرف جاؤ گے اور اپنے پیچھے ان کو چھوڑ دو گے کہ تمھاری اولاد اور جائداد کو نقصان پہنچائیں۔ اللہ کی قسم! میں امید رکھتا ہوں کہ یہ وہی قوم ہے (جو حدیث میں مذکور ہے) انھوں نے حرام خون بہایا ہے اور لوگوں کے مواشی لوٹ لیے ہیں، لہٰذا اللہ کا نام لے کر ان کی طرف قدم بڑھاؤ۔[1]
نہروان والے دن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’میں مارقین یعنی دین سے نکل جانے والوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہوں اور یہ لوگ مارقین میں سے ہیں۔‘‘[2]
چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے نہر نہروان کے اس پار یعنی مشرق میں خوارج سے مقابلہ کے لیے فوج کشی کی اور حکم دیا کہ جب تک خوارج مغرب سے نہر پار کرکے اِدھر نہ آجائیں ان سے لڑائی نہ چھیڑی جائے اور خود آپ نے خوارج کے پاس اپنے قاصدوں کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ان سے کہو وہ لوٹ جائیں، براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو بھیجا، آپ
[1] مصنف نے تین مختلف روایات کو بالمعنی یکجا روایت کردیا ہے، جن میں دو روایات سنداً صحیح اور بالاختصار وارد ہیں، ایک تاریخ بغداد (1/205، 206) کی روایت ہے اور دوسری مصنف ابن أبی شیبۃ (15/310، 311) کی اور ان دونوں روایات میں، کھجور کا پھل اٹھا کر کھانے، اور خنزیر کو قتل کرنے کا واقعہ نہیں ہے۔ یہ واقعہ طبری کا ہے اور ابومخنف کی سند سے مروی ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: تاریخ الطبری (5/82) اور حدیث تاریخ طبری ہی میں (5/81) پر بسند یعقوب عن إسماعیل عن أیوب عن حمید بن ہلال عن رجل من عبدالقیس سے مروی ہے۔ (مترجم)
[2] مجمع الزوائد و منبع الفوائد (6/237، 238 ) اس کی سند صحیح ہے۔
[3] مصنف ابن أبی شیبۃ (15/308، 309) اس کی سند صحیح ہے۔
[4] أنساب الأشراف (2/63) اس کی سند میں مجہول راوی ہیں، دیکھئے: خلافۃ علی /عبدالحمید ص(322)۔
[5] تاریخ بغداد (1/205، 206)۔