کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 845
انھیں قتل کیا۔[1]
ابن عباس رضی اللہ عنہما اور خوارج کے مناظرہ سے مستنبط ہونے والے پند و نصائح اور اسباق
مناظرہ کا عمدہ انتخاب:
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عم زاد بھائی عبداللہ بن عباس کو مناظرہ کے لیے منتخب کیا، آپ حبرالامۃ اور ترجمان القرآن تھے، آپ کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ فریق مخالف اپنے عقائد کے ثبوت میں قرآن سے استدلال کرتا تھا، اس لیے ضروری ہوا کہ ان سے مناظرہ ایسا شخص کرے جو قرآن اور اس کی تاویل یعنی معنی و مقاصد سے خوب واقف ہو، یہاں بلاجھجھک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مناظرہ میں خصوصی کردار ادا کیا، کیونکہ آپ خلوص نیتی، صبر، بردباری، مدمقابل کے ساتھ نرم روی اور عدم عجلت سے معمور تھے، نفس پرستی سے دور تھے، لڑائی جھگڑے سے بچ کر ہر فریق کی بات سنتے تھے اور قوی دلیل کے ساتھ واضح انداز میں اپنی بات رکھتے تھے۔
مناظرہ سے قبل شرائط پر اتفاق:
جس طرح امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور آپ کے فریق مخالف یعنی خوارج اس بات پر متفق تھے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں عمل کے پابند ہوں گے، بالکل اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی شرط لگائی اور کہا کہ اگر میں کتاب اللہ اور سنت رسول کی روشنی میں تمھاری باتوں کو غلط ٹھہراؤں تو تم اسے مانو گے؟ اس شرط کے باوجود عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مناظرہ شروع کرنے سے پہلے پھر ان سے قول و اقرار کروایا۔
فریق مخالف کے دلائل سے واقفیت اور اس کا احاطہ کرنا:
مناظرہ کا آغاز کرنے سے پہلے فریق مخالف کے دلائل سے واقفیت ہونا چاہیے، تاکہ جواب کے لیے پوری تیاری ہو، ہمیں توقع ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے مناظرہ کرنے سے پہلے ان کے دلائل کا اندازہ کرلیا تھا اور اپنے ساتھیوں کو سمجھا دیا تھا کہ ان کا جواب کیسا دیا جائے گا۔
فریق مخالف کے خیالات کو یکے بعد دیگرے توڑنا:
فریق مخالف کے خیالات کو یکے بعد دیگرے نہایت واضح طور سے توڑا جائے، تاکہ ان کی کوئی دلیل باقی نہ رہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے کلام میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ جب ایک دلیل کا جواب دے کر فارغ ہوجاتے ہیں تو پوچھتے ہیں: کیا میں اپنی دلیل کے ذریعہ سے اس اعتراض سے نکل گیا؟