کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 844
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا (النسائ:35) ’’اور اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف مرد کے گھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو۔‘‘ پس میں تمھیں پھر اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسلمانوں کے درمیان مصالحت کروانے اور ان کی باہمی خون ریزی کو روکنے میں حکم مقرر کرنا بہتر ہے یا عورت کے سامان لذت (شرم گاہ) میں۔ کیا میں (پہلے اعتراض سے) نکل گیا۔ انھوں نے کہا: ہاں۔ پھر میں نے کہا: تمھاری یہ شکایت کہ انھوں نے قتال کیا، لیکن مقابل کو برا بھلا نہیں کہا، ان کا مال نہیں لوٹا، تو اس سلسلہ میں مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا تم اپنی ماں عائشہ رضی اللہ عنہما کو گالیاں دینا پسند کرتے ہو، اور ان کے بارے میں بھی ان باتوں کو حلال جانو گے جو ان کے سوا کے لیے حلال جانتے ہو؟ اگر ایسا ہے تو تم نے کفر کیا اور اگر یہ کہو کہ وہ ہماری ماں نہیں ہیں تو بھی تم کافر ہوگئے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے: النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ (الاحزاب:6) ’’یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔‘‘ تو تم دو گمراہیوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہو، اس سے نکلنے کا راستہ تمھیں بتاؤں۔ کیا میں اس شکایت سے نکل گیا، انھوں نے کہا: ہاں۔پھر میں نے کہا: تمھاری یہ شکایت کہ انھوں نے اپنے نام سے امیر المومنین کا لقب کیوں مٹا دیا، تو میں اس کی دلیل تمھیں دیتا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین سے جب مصالحت کی تھی تو علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ((اُکْتُبْ یَا عَلِیُّ ہٰذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدُ رَسُوْلَ اللّٰہِ۔)) ’’اے علی! لکھو کہ یہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ نے اتفاق کیا ہے۔ ‘‘ یہ سن کر مشرکین کہنے لگے: اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو پھر آپ سے جنگ کیوں لڑتے، تب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اُمْحُ یَا عَلِیُّ! اَللّٰہُمَّ اَنَّکَ تَعْلَمُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ، أَمَحَ یَا عَلِیُّ! وَ اکْتُبْ ہٰذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ، وَ اللّٰہِ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ عَلِیٍّ۔)) ’’اے علی اسے مٹا دو، اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اے علی! مٹا دو اور لکھو کہ یہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے اتفاق کیا ہے، اللہ کی قسم اللہ کا رسول علی سے بہتر ہے۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی مٹا دیا، پس اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو نبوت سے مٹا دیا ہے۔ بتاؤ کیا میں اس آخری شکایت سے بھی نکل گیا، انھوں نے کہا: ہاں۔ پھر ان میں سے دو ہزار لوگ دوبارہ علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں واپس لوٹ آئے اور بقیہ نے انکار کردیا اور اپنی گمراہی پر انھوں نے قتال کیا اور مہاجرین و انصار نے