کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 843
پاکیزہ چیزیں؟‘‘ پھر انھوں نے کہا: آپ کا آنا کیسے ہوا؟میں نے کہا: میں مہاجرین وانصار صحابہ کے پاس سے آرہا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد، اور آپ کے عم زاد بھائی کے پاس سے آرہا ہوں، انھیں پر قرآن نازل ہوا، وہ قرآن کی تفسیر اور اس کا معنی و مفہوم تم سے زیادہ جانتے ہیں، اور ان کا کوئی فرد تم میں نہیں ہے، میں تمھیں ان کے خیالات سے اور ان کو تمھارے خیالات سے متعارف کراؤں گا، چنانچہ کچھ لوگ الگ ہو کر میرے پاس آئے۔ میں نے کہا: اصحاب رسول اور علی رضی اللہ عنہ کے خلاف تمھیں کیا شکایات ہیں؟ انھوں نے کہا: تین شکایات ہیں۔ میں نے کہا: وہ کیا ہیں؟ انھوں نے کہا: پہلی شکایت تو یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے معاملہ میں انسانوں کو حکم تسلیم کرلیا، حالانکہ اللہ فرماتا ہے: إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ’’حکم صرف اللہ کے لیے ہے۔‘‘ پس اس آیت کی روشنی میں انسانوں کا ’’حکم‘‘ سے کیا تعلق؟ میں نے کہا: ایک ہوئی۔دوسری شکایت کیا ہے؟ انھوں نے کہا: انھوں نے (معاویہ اور ان کے ساتھیوں سے) قتال کیا، لیکن نہ انھیں برا بھلا کہا اور نہ ان کا مال لوٹا، اگر وہ کافر تھے تو انھیں قیدی بنانا جائز تھا اور اگر مومن تھے تو نہ انھیں قید کیا جاسکتا تھا اور نہ ان سے قتال جائز تھا، میں نے کہا: یہ دوسری ہوئی۔ تیسری شکایت کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ انھوں نے عہد نامہ تحکیم سے خود ’’امیر المومنین‘‘ کا لقب مٹادیا، اگر وہ امیر المومنین نہیں تو کیا امیر الکافرین ہیں؟ پھر میں نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی اور کچھ ہے؟ انھوں نے کہا کہ نہیں، بس اتنا ہی۔ میں نے ان سے کہا: کیا میں کتاب اللہ اور سنت رسول کی روشنی میں تمھاری باتوں کو غلط ٹھہراؤں تو لوٹ آؤگے؟ انھوں نے کہا: ہاں، پھر میں نے کہا کہ تمھاری یہ شکایت کہ انھوں نے اللہ کے معاملہ میں انسانوں کو حکم بنایا، تو اس کے جواب میں مَیں تمھیں قرآن کی ایک آیت سناتا ہوں، جس میں اللہ نے ربع درہم جیسی معمولی چیز کے بارے میں انسانوں کو حکم ٹھہرایا ہے اور انھیں حکم دیا ہے کہ اس میں فیصلہ کریں، اللہ کے اس کلام کے بارے میں کیا خیال ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ (المائدۃ:95) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شکار کو مت قتل کرو، اس حال میں کہ تم احرام والے ہو اور تم میں سے جو اسے جان بوجھ کر قتل کرے تو چوپاؤں میں سے اس کی مثل بدلہ ہے جو اس نے قتل کیا، جس کا فیصلہ تم میں سے دو انصاف والے کریں۔‘‘ میں تمھیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ بتاؤ! لوگوں کے اختلافات کو مٹا کر صلح پیدا کرنے اور انھیں خون ریزی سے بچانے کے لیے ’’حکم‘‘ مقرر کرنا بہتر ہے، یا ایک خرگوش کے بارے میں (جس کی قیمت ربع درہم ہے) انھوں نے کہا: ہاں، یہی افضل و بہتر ہے۔ اور سنو! بیوی اور اس کے خاوند کے بارے میں اللہ نے فرمایا:
[1] تاریخ بغداد (1/160)۔ [2] البدایۃ والنہایۃ (7/280، 281) اس کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد (6/235)۔ [3] مصنف عبدالرزاق (10/157، 160) بسند حسن۔ [4] تاریخ خلیفۃ ص (192)۔