کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 842
مثلاً خوارج کا حروراء کی طرف سمٹ جانا، خوارج سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مناظرہ، خوارج کو راہ راست پر لانے کی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی کوشش، معرکۂ نہروان کے اسباب، معرکۂ نہروان کے نتائج، چند اصولی مباحث کی تنقیح و تنقید، کیا خوارج کے افکار و نظریات والے لوگ اس زمانہ میں بھی ہیں؟ ان کے وجود کے اسباب و محرکات کیا ہیں؟ اور ان سے نبردآزما کیسے ہوا جاسکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ خوارج کا حروراء کی طرف سمٹ جانا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مناظرہ جس وقت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج کے ساتھ صفین سے کوفہ لوٹ رہے تھے ٹھیک اسی وقت خوارج، علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے بہت سے لوگوں کو لے کر آپ سے الگ ہوگئے، ان کی تعداد بعض روایات کے مطابق دس ہزار سے کچھ زیادہ اور بعض میں تحدید کے ساتھ بارہ ہزار[1] اور ایک روایت کے مطابق آٹھ ہزار[2] اور بعض کے مطابق چودہ ہزار تھی۔[3] اسی طرح بعض روایات میں ان کی تعداد بیس ہزار بتائی گئی ہے، لیکن یہ روایت بلاسند ہے۔[4] بہرحال یہ لوگ کوفہ پہنچنے سے قبل علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے کئی مراحل میں الگ ہوئے، فوج کا اس قدر ٹوٹنا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کے لیے بے چینی اور خوف کا سبب بن رہا تھا، تاہم علی رضی اللہ عنہ اپنی فرماں بردار بقیہ فوج کو لے کر چلتے رہے اور کوفہ پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد جب آپ کو خبر ملی کہ خوارج نے اپنی منظم جماعت بنالی ہے، نماز کا ایک امیر، اور قتال کا دوسرا امیر منتخب کرلیا ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور اللہ کے لیے بیعت کر رہے ہیں، تو آپ یہی گتھی سلجھانے میں پھنس گئے، کیونکہ یہ سب حرکات عملاً مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوجانے کی علامات تھیں۔ ہر چند کہ انھوں نے یہ سب کیا تھا، لیکن علی رضی اللہ عنہ انھیں مسلمانوں کی جماعت میں لانے کے لیے بہت حریص تھے، چنانچہ آپ نے خوارج سے مناظرہ کرنے کے لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے پاس بھیجا۔ آئیے خود ابن عباس رضی اللہ عنہما کی زبانی ان تفصیلات کو سنیں، وہ فرماتے ہیں کہ ’’میں ان کی طرف چلا اور یمن کا ایک خوب صورت ترین حلہ (جوڑا) زیب تن کیا، کنگھی کی، اور ٹھیک دوپہر کے وقت ان کے پاس پہنچا جب وہ ایک گھر پر علیحدہ جمع تھے۔ واضح رہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک خوب رو اور بلند آواز والے مرد تھے، انھوں نے مجھ کو دیکھ کر مرحبا مرحبا کہا اور کہنے لگے کہ اے ابن عباس یہ حلہ کیسا ہے؟ میں نے کہا: مجھ پر اس حلہ سے عیب نہ لگاؤ، میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہتر سے بہتر حلوں میں ملبوس دیکھا ہے اور قرآن میں یہ آیت نازل کی گئی ہے: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ (الاعراف:32) ’’تو کہہ کس نے حرام کی اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی اور کھانے پینے کی
[1] شرح النووی علی صحیح مسلم 7/175۔ [2] البخاری (3344، 4667، 7432) و صحیح مسلم/ الزکوٰۃ / باب ذکر الخوارج و صفاتہم (1064)۔ [3] عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام 3/1185۔ [4] عقیدۃ أہل السنۃ 3/118۔