کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 841
کہ ’’یتیہ‘‘ کا فعل ماضی ’’تاہ‘‘ ہے جس کا معنی راہ حق سے ہٹ جانا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔[1] ٭ ایک اور مذموم صفت جس میں وہ لت پت ہیں اور حقیقتاً وہ اسے انجام بھی دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو قتل کرنا اور عیسائیوں و بت پرستوں کو چھوڑ دینا، اپنا دین سمجھتے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِيْ ہٰذَا قَوْمًا یَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَقْتُلُوْنَ أَہْلَ الْإِسْلَامِ وَ یَدْعُوْنَ أَہْلَ الْأَوْثَانِ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الْإِسْلَامِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ لَئِنْ اَدْرَکْتُہُمْ لَاَقْتَلَنَّہُمْ قَتْلَ عَادٍ۔)) [2] ’’اس کی اصل سے ایک قوم نکلے گی جو قرآن پڑھیں گے اور ان کے گلوں کے نیچے نہیں اترے گا، وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، وہ اسلام سے ایسے ہی نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے۔ اگر میں ان کو پاتا تو ایسے قتل کرتا جیسے عاد قتل ہوئے ہیں۔‘‘ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ایک واضح معجزہ نکلا، ہوبہو یہ باتیں واقع ہوئیں، انھوں نے مسلمانوں کے خلاف تلواریں سوتیں اور کفار و یہود کے خلاف انھیں میان میں رکھا۔[3] اسی طرح خوارج کے قبیح ترین اوصاف میں سے جو ان کے لیے باعث ننگ و عار ہیں، یہ ہیں کہ ان کے ظہور کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں قتل کردینے کی ترغیب دی ہے اور کہا کہ اگر خود میں ان کا دور پاؤں گا تو عاد کی طرح قتل کرکے ان کا نام و نشان مٹا دوں گا اور فرمایا کہ جو ان کو قتل کرے گا بروز قیامت اللہ کے نزدیک اسے اجر ملے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خلیفۂ راشد علی رضی اللہ عنہ کو ان سے قتال کرنے اور انھیں تہ تیغ کرنے کا شرف بخشا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ اوصاف کے مطابق ان کا ظہور علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوا تھا، آپ نے اپنی جس فوج کو شام کی مہم کے لیے تیار کیا تھا، آپ اسے لے کر خوارج کی طرف نکل پڑے اور نہروان میں ان سے لڑائی لڑی۔ چند افراد جو دس سے بھی کم تھے، بچ سکے۔آپ نے اپنی طرف سے ان سے لڑائی کا آغاز نہیں کیا تھا، بلکہ جب انھوں نے ناحق خون بہایا، مسلمانوں کا مال لوٹا، قولاً و عملاً بدتمیزیاں شروع کیں تو آپ نے ان کی سرکشی اور مظالم کے خلاف جنگ شروع کی۔ ان کی مذمت میں بس اتنی ہی روایات کافی ہیں، ورنہ اس باب میں اس کثرت سے روایات موجود ہیں جن سے شاید ہی حدیث کی کوئی کتاب خالی ہو۔[4] آئندہ صفحات میں ان شاء اللہ ان کے بعض دیگر اوصاف کا تذکرہ درج ذیل ابواب میں جستہ جستہ ہوتا رہے گا
[1] صحیح مسلم / الزکاۃ/ باب ذکر الخوارج و صفاتہم (1065)۔ [2] صحیح مسلم / الزکوٰۃ/ باب ذکر الخوارج و صفاتہم (1066) ۔ [3] صحیح مسلم / الزکوٰۃ/ باب التحریض علی قتل الخوارج (1068) ۔