کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 838
نیچے نہ اترے گا، دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے، کہ شکاری دیکھتا ہے اپنی تیر کی لکڑی کو، اور اس کی پھال کو اور اس کی پر کو، اور غور کرتا ہے اس کے کنارۂ اخیر کو جو اس کی چٹکیوں میں تھا کہ کہیں اس کی کسی چیز میں کچھ خون بھرا ہے (تو دیکھتا ہے کہیں کچھ بھی نہیں بھرا)‘‘ ٭ صحیح بخاری میں یسیر بن عمرو کا بیان ہے کہ میں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے خوارج کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کہتے ہوئے سنا ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے درآں حالیکہ آپ نے عراق کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا: (( یَخْرُجُ مِنْہُ قَوْمٌ یَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الْاِسْلَامِ مُرُوْقَ السَّہْمِ مِنَ الرَّمْیَۃِ۔)) [1] ’’اس سے ایک قوم نکلے گی، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، وہ اسلام سے ایسے ہی نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے۔‘‘ ان تینوں احادیث میں واضح طور سے خوارج کی مذمت موجود ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اوصاف کے بارے میں فرمایا کہ یہ گروہ ’’مارقہ‘‘ یعنی دین سے خارج ہے اور یہ لوگ نامناسب مقامات پر دین میں تشدد سے کام لیتے ہیں، دین میں داخل ہوتے ہیں، لیکن ان میں استحکام نہیں ہوتا، بہت تیزی کے ساتھ اس سے نکل بھی جاتے ہیں۔ پہلی حدیث میں خاص طور سے ان کے اوصاف یہ بتائے گئے ہیں کہ یہ لوگ اہل حق سے قتال کریں گے اور اہل حق انھیں قتل کریں گے، ان میں ایک آدمی کا ہاتھ اس اس طرح کا ہوگا، بہرحال یہ ساری باتیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق ہو بہو واقع بھی ہوئیں۔ مذکورہ احادیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ((لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ)) میں دو معنوں کا احتمال ہے: 1۔ قرآن ا ن کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا، یعنی وہ اس سے عبرت نہیں حاصل کریں گے، سمجھ بوجھ کر نہیں پڑھیں گے اور اسے غیر مرادی معنوں پر محمول کریں گے۔ 2۔ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا یعنی ان کی تلاوت اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچے گی اور وہ اس کا ثواب نہیں پائیں گے۔[2] ارشاد نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مطابق ان کے اوصاف مذمومہ میں یہ بات بھی داخل ہے کہ ان کے ایمان کا دعویٰ صرف زبانی ہوگا، عقل کے کمزور بلکہ کورے ہوں گے۔ وہ قرآن پڑھتے ہوئے اپنے عقلی کوڑھ پن کی وجہ سے اپنی مخالف آیات کو اپنے حق میں سمجھیں گے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علی رضی اللہ عنہ کا فرمان نقل کیا ہے جو کہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب میں تمھیں
[1] صحیح مسلم / الزکاۃ/ باب ذکر الخوارج و صفاتہم (1064)۔ [2] صحیح مسلم / الزکاۃ/ باب ذکر الخوارج و صفاتہم (1064)۔