کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 837
میں بنوتمیم کا ایک آدمی ذو الخویصرہ آپہنچا اور کہا کہ اللہ کے رسول! عدل کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَیْلَکَ وَ مَنْ یَّعْدِلُ إِذَا لَمْ اَعْدِلُ، قَدْ خِبْتُ وَ خَسِرْتُ إِنَّ لَّمْ اَعْدِلْ۔)) ’’بربادی ہو تیری، جب میں عدل نہ کروں گا تو کون کرے گا میں تو ہلاک ہوگیا اور بدنصیب ٹھہرا اگر میں نے عدل نہ کیا۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول مجھے اجازت دیجیے کہ اس کی گردن مار دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((دَعْہٗ فَإِنَّ لَہٗ أَصْحَابًا یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلٰوتَہٗ مَعَ صَلٰوتِہِمْ وَ صَیَامَہٗ مَعَ صِیَامِہِمْ یَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الْإِسْلَامِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمْیَۃِ۔)) ’’جانے دو، کیونکہ اس کے ساتھی ہوں گے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے آگے اور اپنے روزہ کو ان کے روزہ کے آگے حقیر سمجھو گے، وہ قرآن پڑھیں گے، لیکن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے کہ جیسے تیر کمان سے۔‘‘ تیر انداز اس کے پیکان کو دیکھتا ہے تو اس میں کچھ بھرا ہوا نہیں پاتا، پیکان کی جڑ کو دیکھتا ہے تو اس میں بھی کچھ نہیں پھر اس کی لکڑی کو دیکھتا ہے تو اس میں کچھ نہیں، پھر اس کے پَر کو دیکھتا ہے تو اس میں بھی کچھ نہیں، اور تیر اس شکار کی بیٹ اور خون سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اس گروہ کی نشانی یہ ہے کہ اس میں ایک کالا آدمی ہوگا، اس کا ایک بازو عورت کے پستان کا سا ہوگا، یا آپ نے فرمایا: جیسے گوشت کا لوتھڑا تھلتھلاتا ہوا، وہ گروہ اس وقت نکلے گا جب لوگوں میں پھوٹ ہوگی۔
ابوسعید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ علی رضی اللہ عنہ ان سے لڑے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ آپ نے اسے (صفت مذکور والے شخص کو) ڈھونڈنے کا حکم دیا اور وہ ملا اور آپ کے پاس لایا گیا، میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں جس طرح فرمایا تھا وہ ویسا ہی تھا۔[1]
٭ ابوسلمہ اور عطاء کا بیان ہے کہ وہ دونوں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: کیا آپ نے ’’حروریہ‘‘ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نہیں جانتا کہ حروریہ کون ہیں، مگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ((یَخْرُجُ فِیْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ)) ’’اس امت میں ایک قوم نکلے گی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’مِنْہَا‘‘ یعنی اس امت سے ہوگی، نہیں فرمایا۔ آگے فرمایا:
(( تَحْقِرُوْنَ صَلَواتِکُمْ مَعَ صَلَواتِہِمْ، فَیَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حُلُوْقَہُمْ - اَوْ- حَنَاجِرَہُمْ، یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنَ مُرُوْقَ السَّہْمِ مِنَ الرَّمْیَۃِ، فَیَنْظُرُ الرَّامِیْ إِلٰی سَہْمِہٖ إِلٰی نَصْلِہِ إِلٰی رِصَافِہِ فَیَتَمَارٰی فِی الْفَوْقَۃِ ہَلْ عُلِّقَ بِہَا مِنَ الدَّمِ شَْیٌٔ۔))[2]
’’تم اپنی نماز کے آگے ان کی نماز کو حقیر جانو گے، وہ قرآن پڑھیں گے، ان کے حلقوں سے یا گلوں سے
[1] صحیح مسلم 2/740۔
[2] تلبیس إبلیس ص 90۔
[3] الفصل فی الملل و الأہواء و النحل 4/157۔
[4] الملل والنحل 1/116۔
[5] عقیدۃ اہل السنۃ فی الصحابۃ 3/1141۔
[6] شرح العقیدۃ الطحاویۃ ص 563۔
[7] البدایۃ والنہایۃ 7/202۔
[8] فرق معاصرۃ /العواجی 1/67، خلافۃ علی / عبدالحمید ص 297۔