کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 836
علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ’’خوارج کا سب سے پہلا اور بدترین آدمی ذوالخویصرہ تمیمی‘‘ ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ اس نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا: انصاف سے کام لیجئے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((وَیْلَکَ، وَ مَنْ یَّعْدِلُ إِذَا لَمْ اَعْدِلُ۔))[1] ’’تیرا ستیاناس ہو، کون انصاف کرے گا، اگر میں نے نہیں کیا؟‘‘ اس طرح یہ پہلا خارجی ہے جس نے اسلام میں بغاوت کا شوشہ چھوڑا، اس کی مصیبت یہ تھی کہ اس نے خود رائی کو پسند کیا، اگر وہ کچھ دیر توقف کرتا تو جان لیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے آگے کسی کی رائے کا کوئی مطلب نہیں ہوتا، اسی آدمی کے ہم خیال و ہم مشرب لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت کرکے ان سے جنگ لڑی۔[2] ابومحمد بن حزم[3] اور علامہ شہرستانی[4] نے ذوالخویصرہ کو سب سے پہلا خارجی قرار دیا ہے۔
کچھ علماء کا خیال ہے کہ خوارج کی پیدائش ان لوگوں سے شروع ہوئی جنھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بلوا کرکے آپ کو ظلم و تعدی کے ساتھ قتل کردیا۔ ان بلوائیوں کے اس فتنہ کو ’’فتنۂ اولیٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔[5] جس کے بارے میں شارح عقیدہ طحاویہ امام ابن ابی العز الحنفی فرماتے ہیں کہ ’’…’’فتنہ اولیٰ‘‘ میں خوارج اور شیعہ پیدا ہوئے۔‘‘[6] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بلوا پیدا کرنے اور پھر آپ کو شہید کردینے والوں کو ’’خوارج‘‘ کہا ہے۔ چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں بلوائیوں کے قاتلانہ حملہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خوارج آئے اور بیت المال کا مال لوٹ لیا، اس میں بہت ساری چیزیں تھیں۔‘‘[7]
مذکورہ تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے خوارج کے بارے میں جو بات راجح معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ ذوالخویصرہ، عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھنے والے بلوائیوں نیز ’’تحکیم‘‘ کی بنا پر علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے خوارج کے درمیان اگرچہ کافی گہرا اور مضبوط ربط ہے، لیکن دقیق معنی میں خوارج کی اصطلاح صرف ان لوگوں پر صادق آتی ہے جنھوں نے معاملۂ ’’تحکیم‘‘ کی وجہ سے خروج کیا، وہ ایک گروہ کی شکل میں ابھرے تھے، جس کی ایک خاص فکر اور خاص سیاسی نظریہ تھا اور جس نے سابقہ حالات کے برعکس واضح طور سے مسلم ماحول میں ایک جدید فکری و اعتقادی رجحان چھوڑا۔[8]
خوارج کی مذمت میں وارد شدہ احادیث:
خوارج کی مذمت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث ثابت ہیں۔ ان میں خوارج کے ایسے گھناؤنے اور قابل نفریں اوصاف کا تذکرہ ہے کہ جن کی وجہ سے وہ بے حد گھٹیا اور خبیث ترین مقام کے مستحق ٹھہرتے ہیں، چنانچہ یہاں چند احادیث تحریر کی جاتی ہیں جن میں ان کی مذمت کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔
٭ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور آپ کچھ تقسیم کر رہے تھے، اتنے
[1] صحیح البخاری حدیث نمبر 4351۔