کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 835
پہلا خارجی مانا ہے، جس نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یمن سے بھیجے گئے چمڑا کے تھیلے میں سونے کی ڈلیوں کی تقسیم کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تھا، جس کی تفصیل ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اس طرح وارد ہے: ’’یمن سے علی بن ابی طالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیری کی پتوں سے دباغت دیے ہوئے چمڑا کے ایک تھیلے میں سونے کی چند ڈلیاں بھیجیں، ان سے (کان کی) مٹی بھی ابھی صاف نہ کی گئی تھی۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کردیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید الخیر اور چوتھے علقمہ بن کلاثہ یا عامر بن طفیل تھے۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب نے اس پر کہا کہ ان لوگوں سے زیادہ ہم اس سونے کے مستحق تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ((أَ لَا تَأْمُنُوْنِیْ وَ أَنَا أَمِیْنٌ مَنْ فِی السَّمَائِ یَأْتِیْنِیْ خَبْرُ السَّمَائِ صَبَاحًا وَ مَسَائً)) ’’کیا تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے، حالانکہ میں ہستی کا امین ہوں جو آسمان پر ہے اور اس کی وحی میرے پاس صبح و شام آتی ہے۔‘‘ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، دونوں رخسار پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور تہبند اٹھائے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! اللہ سے ڈریے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَیْلَکَ أَوْلَسْتُ أَحَقَّ أَہْلِ الْأَرْضِ أَنْ یَّتَّقِی اللّٰہَ)) ’’افسوس تجھ پر، کیا میں اس روئے زمین پراللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں۔‘‘ پھر وہ شخص چلا گیا، خالد بن ولید نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟ آپ نے فرمایا: ((لَا، لَعَلَّہٗ أَنْ یَّکُوْنَ یُصَلِّیْ)) ’’نہیں، شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔‘‘ اس پر خالد نے عرض کیا کہ بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنِّیْ لَمْ أُوْمَرُ أَنْ اَنْقُبَ قُلُوْبَ النَّاسِ وَلَا اَشُقَّ بُطُوْنَہُمْ۔)) ’’مجھے اس کا حکم نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کے دلوں کا کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہوا ہے کہ ان کے پیٹ چاک کروں۔‘‘ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جارہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّہٗ یَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِيْ ہٰذَا قَوْمٌ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ رَطْبًا وَلَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمْیَّۃِ - وَ اَظُنُّہُ- قَالَ: لَئِنْ أَدْرَکْتُہُمْ لَأَقْتُلَّنَہُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ۔)) [1]
’’اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اگر میں ان کے دور میں ہوا تو قوم ثمود کی طرح ان کو قتل کروں گا۔‘‘
[1] ہدی الساری فی مقدمۃ فتح الباری ص 459۔
[2] فتح الباری 2/283۔
[3] التنبیہ و الرد علی أہل الأہواء و البدع ص 47۔
[4] الخوارج / ناصر العقل ص 28۔
[5] اس کی وجہ تسمیہ ہے کہ الگ ہونے کے بعد یہ لوگ سب سے پہلے مقام ’’حرورائ‘‘ میں اکٹھا ہوئے تھے۔
[6] ’’شراۃ‘‘ کے معنی سودا کرلینے والے، چنانچہ یہ لوگ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے اپنی جانوں کا سودا کرلیا ہے۔
[7] اس کی وجہ تسمیہ ہے کہ یہ تحکیم کے منکر اور ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ کے نعرے باز تھے۔
[8] مقالات الإسلامیین 1/207۔