کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 834
عثمان اور ان کی ذریت پر تبرّا بازی کی اور ان سے لڑائیاں لڑیں، اگر یہ لوگ ان کی مطلقاً تکفیر کریں تو وہ غالی (متعصب) خوارج ہیں۔‘‘[1] اور دوسری تعریف میں فرماتے ہیں: ’’خوارج، باغیوں کا ایک گروہ ہے، یہ بدعتی گروہ تھا، دینی حکم اور مسلمانوں کی پاکیزہ ہستیوں کے خلاف ان کی بغاوت کی وجہ سے انھیں خوارج کہا جاتا ہے۔‘‘[2] ٭ ابوالحسن ملطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’خوارج کا پہلا گروہ ’’مُحَکِّمَہ‘‘ کا گروہ ہے، جو ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ علی نے ابوموسیٰ اشعری کو حَکَمْ بنا کر کفر کیا، کیونکہ ’’فیصلہ‘‘ صرف اللہ کے لیے ہے۔ یہ فرقۂ خوارج ہے۔ ’’تحکیم‘‘ پر متفق ہونے والے دن علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کے خروج کی وجہ سے انھیں خوارج کہا جاتا ہے، اس لیے کہ انھوں نے ’’تحکیم‘ کو ناپسند کیا اور ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ کا نعرہ لگایا۔‘‘[3] ٭ ڈاکٹر ناصر العقل لکھتے ہیں: ’’خوارج وہ ہیں جو مرتکبین کبائر کی تکفیر کرتے ہیں اور ظالم مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت) کرتے ہیں۔‘‘[4] خلاصہ یہ کہ خوارج وہ گروہ ہے جس نے معرکۂ صفین میں علی رضی اللہ عنہ کے معاہدہ ’’تحکیم‘‘ کو قبول کرلینے کی وجہ سے ان کے خلاف خروج (بغاوت) کیا تھا، یہ لوگ خوارج کے علاوہ دیگر القاب و اسماء سے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں مثلاً ’’حروریہ‘‘،[5]’’شراۃ‘‘،[6]’’المارقہ‘‘ یا ’’مُحَکِّمَہ‘‘[7]وغیرہ۔ واضح رہے کہ یہ لوگ ’’مارقہ‘‘ کے علاوہ بقیہ مذکورہ القاب کو اپنے حق میں تسلیم بھی کرتے ہیں۔ البتہ مارقہ کو اس لیے نہیں مانتے کہ انھیں حدیث میں ((مَارِقَۃٌ مِّنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ))[8] یعنی جس طرح تیر جانور سے نکل جاتا ہے ایسے ہی انھیں دین سے نکل جانے والا کہا گیا ہے۔ بعض علماء نے خوارج کی پیدائش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک طویل کیا ہے اور ذو الخویصرہ کو سب سے
[1] مقالات الإسلامیین 1/207۔ [2] الفصل فی الملل و النحل 2/113۔ [3] الملل و النحل 2/113۔