کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 830
یہ وہ لوگ ہیں جو ادب، قصے کہانیوں، قومی واقعات اور بے بنیاد و غیر مستند کتب سے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ضعیف، مشکوک، اور ساقط الاعتبار روایات کو نکالتے ہیں اور ان سے چمٹ جاتے ہیں، عموماً ایسے ہی کتب ان کا مرجع ہوتی ہیں، مزید برآں طبری اور مسعودی کی جھوٹی روایات کو بھی اس میں شامل کرلیتے ہیں، حالانکہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ کتب قابل اعتبار علمی مرجع نہیں ہیں۔ ہمیں یہ لکھنے میں ذرا بھی دریغ نہیں کہ اسلامی تاریخ پر اور خا ص طور سے دور اوّل کے مسلمانوں کی تاریخ پر ظلم ہوا ہے۔ کردار کشی کا ظلم کہ جس میں مخصوص مواقف کو بحث و مباحثہ کا موضوع بنایا گیا ہے، جنگوں اور لڑائیوں کے تحلیل و تجزیہ پر پوری توجہ صرف کی گئی ہے، ان کی غیر حقیقی منظر کشی کی گئی ہے تاکہ انھیں جہاد فی سبیل اللہ کا نام نہ دیا جاسکے۔ اسی طرح صحابہ کرام کے درمیان رونما ہونے والے داخلی فتن پر زور دیا گیا ہے تاکہ باور کرایا جاسکے کہ صحابہ خود باہمی اختلاف کا شکار تھے، پھر ان فتن کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ جیسے عصرحاضر کی سیاسی چالبازیاں اورباہمی کشمکش ہوں۔ چشم پوشی اور نظر اندازی کا ظلم کہ جس میں ہر قابل تقلید عمل اوراسوۂ حسنہ کو قصداً نظر انداز کردیا گیا ہے۔ شکوک و شبہات کا ظلم کہ جس میں شکوک و شبہات کی بہترین تاریخ، تاریخی ہستیوں اور خود مسلم مؤرخین کی طرف پھینکی گئی ہیں اور ان کی معلومات اور صداقت و امانت پر شک و شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ تجزیہ و تحلیل کا ظلم کہ جس میں تجزیہ کے نام پھر اسلامی تاریخ کو ریاسیت، ملکی، یا نسلی تقسیم کی طرح مختلف ٹکڑوں میں اس انداز میں تقسیم کردینے کی کوشش کی ہے کہ جن میں باہم کوئی رابطہ نظر نہ آئے۔ مختصر یہ کہ مذکورہ تمام تر وسائل و ذرائع اور خارجی حملے ہماری اسلامی تاریخ کو جڑ سے منہدم کردینے اور اس کے روشن نقوش کو تاریک کردینے کی پوری کوشش میں ہیں اورچاہتے ہیں کہ اس کی تربیت صحیحہ اور قدوۂ حسنہ کے پہلو کو اس باب سے غائب کردیں۔ لہٰذا ہر مسلم مؤرخ کے لیے ان وسائل کی معرفت اور اپنے خیالات و منہج میں مستشرقین کے نقش قدم پر چلنے والوں کی معرفت ضروری ہے اور ایسے لوگوں سے ہوشیار رہتے ہوئے بہت احتیاط و تحقیق کے بعدان کی باتیں قبول کی جائیں، اگر ہمارے علمائے سلف نے -اللہ ان پر رحم کرے- بہت سارے راویوں پر نقد اور ان کی روایات کی تضعیف اس لیے کی ہے کہ انھوں نے اہل کتاب کی روایات قبول کی ہیں اور اسرائیلیات کو روایت کیا ہے تو کیا ہمارے لیے یہ قدوہ نہیں ہے کہ مستشرقین کے اقوال اوران کے خیالات و نظریات سے اتفاق کرنے والوں کی باتیں قبول کرنے میں ہم توقف کریں، بلکہ جب تک صحت کی کوئی واضح اور ٹھوس دلیل نہ مل جائے ان پر بالکل اعتبار نہ کریں۔[1] 
[1] منہج کتابۃ التاریخ الإسلامی (504)۔