کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 829
اسلامی تاریخ کے حقائق کو بگاڑنے اور تحریف کرنے کے لیے مستشرقین اور ان کے شاگردوں کا سب سے اہم کردار:
اس سلسلہ میں سب سے اہم ذریعہ ان کے پاس یہ ہوتا ہے کہ وہ تاریخی واقعات کی غلط توجیہ کرتے ہیں، انھیں اپنی منشا کے مطابق اپنے دور کے حالات و ظروف اور تقاضوں پر تولتے ہیں۔اس بات کی قطعاً تحقیق نہیں کرتے کہ یہ واقعہ پیش بھی آیا تھا یا نہیں اور اگر پیش بھی آیا تو اس دور کے حالات و ظروف کیا تھے؟ کس ماحول میں واقعہ پیش آیا؟ لوگوں کے نظریات اور عقائد کیا تھے؟ اس لیے کسی واقعہ یا حادثہ کی توجیہ و تجزیہ سے پہلے اس کا ثبوت ضروری ہے اور ثبوت کے لیے کسی کتاب میں اس کا لکھا ہوا ہونا کافی نہیں ہے،[1] اس لیے کہ تاریخی واقعات کی تحلیل و تجزیہ کا مرحلہ ثبوت کے مرحلہ کے بعد پیش آتا ہے۔
اسی طرح واقعہ کی تفسیر و توجیہ کی صحت و درستگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخی روایات کے منطوق، موضوع بحث، معاشرہ کے مزاج اورجس ماحول میں واقعہ پیش آیا اس سے ملتا جلتاہو، نیز یہ توجیہ و تجزیہ دوسرے مسلمہ واقعہ یا واقعات سے متعارض نہ ہو۔ اسی طرح یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ عصر حاضرکے بہت سے تجزیہ نگار مؤرخین کی طرح واقعہ کی توجیہ و تجزیہ کے لیے صرف اس کے ایک محرک پر نگاہ رکھی جائے بلکہ ان تمام عوامل پر توجہ دینا ضروری ہے جو درپیش واقعہ پر اثر انداز ہوئے ہیں، خاص طور سے اعتقادی اور فکری عوامل پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ یہاں ایک پہلو اور بھی قابل غور ہے، وہ یہ کہ واقعات و حوادث کا تاریخی تجزیہ بہرحال ایک بشری اجتہاد ہے جس میں غلطی اور صحت دونوں کا امکان ہوتاہے، جسے نہیں بھولنا چاہیے، شاید یہی وجہ ہے کہ بعض اہل قلم نے گمراہ فرقوں کی تاریخ کو بھی سراہا ہے، ان کے کردار کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور انہیں ایک مصلح و مظلوم کی شکل میں ان کی تصویر کشی کی ہے اور یہ ثابت کرنا چاہا کہ مسلم مؤرخین ان پر بلاوجہ چڑھ دوڑتے ہیں، چنانچہ ایسے لوگوں کی نگاہوں میں قرامطہ، اسماعیلیہ، رافضہ امامیہ، فاطمیہ، زنج، اخوان الصفا اور خوارج سب کے سب اصلاح، عدالت اور حریت و مساوات کے داعی ہیں اوران کی انقلابی تحریکات ظلم و جور کے خلاف اصلاح کی تحریکات تھیں۔
پس ایسا پروپیگنڈہ اور اسلامی تاریخ کے خلاف یہ افواہیں اور پھر اسلامی تاریخ کے مصلحین و پاکیزہ نفوس کی سیرت وکردار کا گمراہ فرقوں کے قائدین سے موازنہ کرنا، یہ سب ایسی باتیں ہیں جو کسی بھی غیر مسلم قوم سے بعید نہیں ہے، کیونکہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق شب و روز اور خفیہ و اعلانیہ غرض یہ کہ ہر طریقہ سے اسلام کے خلاف سازش کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، ایمان سے عاری اور کفر کی ملتوں سے اس کے علاوہ توقع ہی کیا کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے ہم مشرب بھائیوں کی مدد کریں گے، تعجب اس پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ استشراقی حکومت کے زوال کے بعد اسلامی تاریخ میں تحریف اور اس کی کردار کشی کا عَلَم ایسے لوگ اٹھائیں جن کے نام اسلامی ہوں اور مسلمانوں کی اولاد ہوں اور پھر مسلمانوں ہی کے خلاف زہر افشانی کریں تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کو صراط مستقیم سے بہکادیں،
[1] منہج کتابۃ التاریخ الإسلامی / محمد صامل ص (502)۔
[2] منہج کتابۃ التاریخ الإسلامی / محمد صامل ص (502)۔
[3] المصادر الأولی لتاریخنا / مجلۃ الأزہر 1374ھ۔