کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 828
نزدیک آپ کی شخصیت مسلم اور ثقہ تھی۔ انھیں اکاذیب اور تحریفات کو پچھلی صدی میں مستشرقین، نصرانیت کے مبلغین اور یورپ کے علماء و مصنّفین نے عالم اسلام کے استعمار کے دوران ہاتھوں لیا، انھیں یہ اکاذیب کیا ملے کہ متاع گم گشتہ ہاتھ لگ گئی، چنانچہ وہ انھیں کریدنے اور نمایاں کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش صرف کرنے لگے، صرف اسی پر بس نہ کیا بلکہ اپنی عصبیت، اور مسلمانوں سے نفرت کے جذبہ میں اپنی طرف سے مزید جھوٹ کا اضافہ کردیا، مثلاً ایسے واقعات کو گھسیڑ دیا جن کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں، یا اپنے عقیدہ و نظریہ کے مطابق تاریخی واقعات کو مسخ کرنے کی نیت سے ان کی غلط تفسیر و تاویل کی یا اپنے مفاد میں اس کی توجیہ کی، پھر عالم اسلام و بلاد عرب میں ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کی ہم نوائی کی، بحث و تحقیق میں انھیں کا منہج و اصول اپنایا، تاریخی واقعات کی تفسیر اور ان کے تحلیل و تجزیہ میں انھیں کے افکار و خیالات کی تقلید کی اور عالم اسلام سے ان کے کوچ کرجانے کے بعد یہی لوگ ان کے علم بردار بنے اور صورت حال اس قدر بدل گئی کہ ان کے مستشرقین اساتذہ اور ان سے ماقبل کے گمراہ و بدعتی فرقوں کے بالمقابل ان کا نقصان اور ایذا رسانیاں بہت سخت اور دورس اثرات کی حامل رہیں، اس لیے کہ اپنے اساتذہ کی طرح ان کا بھی یہی دعویٰ رہا کہ ہم خالص علمی روح اورغیر جانبدار علمی تحقیق پیش کر رہے ہیں، حالانکہ ان کا دعوائے خلوص محض ایک ڈھکوسلا ہے، حق کے لیے اخلاص، تاریخی واقعات کے اثبات میں صاف ستھرے علمی منہج کی پیروی یعنی روایات میں مقارنہ، مصادر کا علمی معیار اور تحقیقی وزن دیکھنا، ناقلین کی امانت داری کہ جو کچھ لکھا وہ کہاں تک صحیح ہے۔ اخبار و روایات کو میزان تحقیق پر تولنا، انسانی آبادی کے احوال و ظروف اور اس کی طبیعتوں سے واقفیت وغیرہ نام کی کوئی چیز ان کے یہاں نہیں پائی جاتی۔[1] علمی منہج کی صرف چند دکھاوے کی چیزوں مثلاً حاشیہ جات اور مراجع کی ترتیب وغیرہ پر دھیان دیا ممکن ہے علمی تحقیق ومنہج کا مفہوم ان کے یہاں یہی ہو۔[2] علامہ محب الدین الخطیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ ہم میں جو لوگ غیر اسلامی تہذیب و ثقافت اختیار کرچکے ہیں وہ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ ہم اپنے ماضی سے صحیح معنوں میں نابلد ہیں اور ہمارے ماضی کی شخصیات سے متعلق ہمارا موقف ان وکیلوں جیسا ہے جو متہم افراد کی طرف سے وکالت کرتے ہیں، اتناہی نہیں بلکہ یہ لوگ شکوک و شبہات کی وادی میں مستشرقین کے پیچھے چلتے ہوئے اغیار کے سامنے خود نمائی کی حرص میں اس قدر نیچے اتر جاتے ہیں کہ خود کو عرب اور اسلام کے ماضی سے بالکل لاتعلق ثابت کرتے ہیں، ان کے ذہنی دیوالیہ پن اور بے اطمینانی کا یہ حال ہے کہ جب حقانیت کی تعلیمات انھیں تلاش حقیقت کی دعوت دیتی ہیں اوراسی کی روشنی میں فیصلہ کرنے اور ان سے اطمینان حاصل کرنے کی طرف بلاتی ہیں توانھیں اطمینان کہیں اور نظر آتا ہے اور نفس پرستی کے دھارے میں آسانی سے جاتے ہیں۔‘‘[3]