کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 827
مقبولیت، ان کی کثرت اور اکثریت کی جہالت، پھر سنت سے ان کی لاعلمی کو اپنے مفاد میں استعمال کیا اور ان میں عیش کوش اورپیشہ ور گروہ کے انحراف کو اپنے لیے حربہ بنایا، چنانچہ ان گمراہ فرقوں نے ان کے درمیان اپنے اکاذیب، حکایات، دیومالائی قصوں اور جھوٹے واقعات کو چل چل کر بیان کیا اور پھر ان جاہلوں اور بے وقوفوں نے بلا سوچے سمجھے ان قصہ کہانیوں کو قبول کیا اور عوام الناس میں انھیں پھیلایا، اس طرح ان کے راستوں سے صحابہ کرام، تابعین اور علمائے اسلام کے خلاف ایسی سیکڑوں جھوٹی احادیث پھیل گئیں جس سے ان کی شان میں گستاخی اور کردار کشی کے ساتھ ان کی تاریخ مسخ ہوتی ہے۔ یہ تو اللہ کا بہت بڑا فضل اور اس کی توفیق رہی کہ اس نے علمائے ناقدین کے ایک گروہ کو مامور کردیا جنھوں نے راویوں اور مرویات کی تنقید و تمحیص میں بے پناہ کوشش کی، صحیح و غلط کا فرق واضح کیا، امت مسلمہ کی تاریخ اور عقیدہ کی طرف سے دفاع کیا، یہ علمائے سنت کا گروہ تھا، جنھوں نے جھوٹی احادیث کو ایک ایک کرکے الگ کیا، ضعیف، متہم اور ’’اہل الآہوائ‘‘ راویوں کی نشان دہی کی، روایات کی تنقید اور ان کے قبول و رد میں ان کی کاوشیں بڑی ہی قابل ستائش ہیں۔
تاریخی مغالطات کی توضیح، اور اس باب کی جھوٹی روایات کی تردید میں قاضی ابن العربی اپنی کتاب ’’العواصم من القواصم‘‘ میں سب سے زیادہ نمایاں طور سے سامنے آئے، اسی طرح امام ابن تیمیہ نے بھی بہت ساری کتب اور کتابچوں خاص طور سے اپنی مایہ ناز کتاب ’’منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ و القدریۃ‘‘میں ان کی تردید کے لیے کمر کسی اورحافظ ذہبی نے تاریخ میں ’’سیر أعلام النبلائ‘‘ اور ’’تاریخ اسلام‘‘ اورتنقید رجال میں ’’میزان الاعتدال‘‘ جیسی تالیفات کے ذریعہ سے اس مہم کو آگے بڑھایا اور مفسر و مؤرخ حافظ ابن کثیر نے اپنی کتاب ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح صحیح البخاری ’’لسان المیزان‘‘، ’’تہذیب التہذیب‘‘، اور ’’الإصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ‘‘ کے ذریعہ سے اس میدان کو سر کیا۔
تاریخی واقعات کی تحریف اور دور اوّل کے مسلمانوں کی کردار کشی کے وسائل:
٭ جھوٹ اور ملمع سازی۔
٭ کسی صحیح روایت یا صحیح واقعہ میں اس انداز سے حذف واضافہ کہ حقیقت بگڑ جائے اور اصلیت گم ہوجائے۔
٭ کسی روایت کو ایسی جگہ رکھنا جہاں اس کا کوئی سیاق نہ ہو، تاکہ روایت کا معنی و مقصد اپنے مقام سے ہٹ جائے اور واقعات کی باطل طریقہ سے تاویل و تفسیر کرنا۔
٭ غلطیوں اور سلبی پہلوؤں کو ابھارنا اورحقائق و صحیح تصویر کو چھپانا۔
٭ من گھڑت تاریخی واقعات و حوادث کی تائید میں اشعار گھڑنا، اس لیے کہ کسی واقعہ سے متعلق کسی عربی شعر کا وجود واقعہ کی توثیق و تائید کے لیے تاریخی سند کی حیثیت رکھتا ہے۔
٭ مشہور علماء و شخصیات کی طرف خود ساختہ کتب اور رسائل کو منسوب کردینا، جیسا کہ روافض سے ’’الامامۃ والسیاسۃ‘‘ نامی کتاب کو ابومحمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ الدینوری کی طرف منسوب کردیا کیونکہ اہل سنت کے
[1] تاریخ عمرو بن عاص حسن إبراہیم ص (206، 207)۔
[2] الشیعۃ والسنۃ / إحسان الٰہی ظہیر ص (32)۔