کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 826
کے اثرات نمایاں ہیں، جیسا کہ طٰہ حسین کی کتاب ’’الفتنۃ الکبریٰ - علی و بنوہ‘‘ اور عقاد کی کتاب ’’عبقریۃ علی‘‘ میں یہ چیز دیکھی جاسکتی ہے، ان دونوں نے ضعیف اور موضوع روایات میں غوطہ خوری کی اور انھیں کی بنا پر اپنا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا، بالآخر وہ درست نتیجہ تک نہ پہنچ سکے اور صحابہ کرام کے حق میں بے حد گھناؤنی غلطیوں میں واقع ہوگئے۔ یہی حال ’’الخلفاء الراشدون‘‘ میں اس کے مؤلف عبدالوہاب نجارکا ہے، انھوں نے کتاب ’’الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ کے حوالہ سے متعدد رافضی روایات کو نقل کیا ہے، اسی طرح حسن بن ابراہیم حسن اپنی کتاب ’’عمرو بن عاص‘‘ میں بڑی غلطی کا شکار ہوئے ہیں اور روافض کی موضوع روایات پر اعتماد کرتے ہوئے یہ لکھ مارا ہے کہ ’’عمرو بن عاص ایک مفاد پرست اور لالچی آدمی تھے، کسی معاملہ میں اس وقت تک مداخلت نہ کرتے تھے، جب تک کہ انھیں اس میں اپنی کوئی مصالحت اور دنیاوی منفعت نظر نہ آتی۔‘‘[1]
ان لوگوں کے علاوہ اور بھی بہت سارے مؤرخین اور سیرت نگار ہیں جو اسی راستہ پر چلے اور تاریخی روایات کے انبار سے کھرے کھوٹے کی تمیز کرنے میں اہل سنت و جماعت کا منہج چھوڑ دینے کی وجہ سے گمراہی کے تاریک گڑھے میں جاگرے۔
استشراق اور اسلامی تاریخ
روافض شیعہ کا فرقہ اپنے متعدد گروہوں اور ذیلی فرقوں کے ساتھ اسلامی تاریخ کی تحریف میں سب سے زیادہ اثرانداز رہا، تمام فرقوں میں یہ سب سے قدیم فرقہ ہے، ان کے پاس سیاسی تنظیم ہے، اور یہ اعتقادی تصورات اور منحرف فکری منہج کے حامل ہیں، یہ فرقہ اپنے مخالف پر جھوٹ بولنے میں سب سے آگے ہے، یہ لوگ صحابہ کے سب سے زیادہ مخالف ہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آرہی ہے۔ صحابہ کرام کو گالی دینا اور ان کی تکفیر کرنا خاص طور سے شیخین ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کو برا بھلا کہنا، ان کے بنیادی عقائد میں داخل ہے، یہ لوگ ان دونوں کو ’’جبت‘‘ اور ’’طاغوت‘‘ کہتے ہیں۔[2]
منظم طور سے شیعہ حضرات کے پاس ایسے متعدد راوی اور واقعات کے ناقلین تھے جنھوں نے ان کی افترا پردازیوں کو عام کرنے اور اسلامی تاریخ کے واقعات، خاص کر مسلمانوں کے اندرونی واقعات و حوادث پر لکھی جانے والی کتب میں انھیں گھسیڑنے کا بیڑا اٹھارکھا تھا، اسی طرح تاریخی روایات اور قصے کہانیوں کو گھڑنے میں شعوبیت اور عصبیت کا خاصا اثر تھا، جن کا ہدف یہ تھا کہ اسلامی تاریخ کے شان دار کارناموں کو مسخ کیا جائے اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر، ایک شہر والوں کو دوسرے شہر والوں پر یا ایک جنس کو دوسری جنس پر فوقیت دی جائے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ (الحجرات:13) ’’بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔‘‘میں تفاضل کا جو شرعی میزان ہے، یعنی تقویٰ سے دور کردیا جائے۔
بہرحال ان گمراہ فرقوں نے صرف اسی پر بس نہ کی بلکہ قصہ گوئی اور داستان سرائی کرنے والوں کی عوامی
[1] منہج کتابۃ التاریخ الإسلامی ص (431)۔
[2] منہج کتابۃ التاریخ الإسلامی ص (432)۔
[3] الفہرست / ابن الندیم ص (171) نیز سیر أعلام النبلاء ۔
[4] الفہرست /ابن الندیم ص (117)۔
[5] معجم الأدباء (13/91، 93)۔
[6] منہج المسعودی فی کتابۃ التاریخ ص (44) أثر التشیع ص (243)۔
[7] لسان المیزان (4/225) أثر التشیع ص (246)۔
[8] شیعہ کا عقیدہ ہے کہ خلافت من جانب اللہ منصوص ہوا کرتی ہے، لوگوں کے انتخاب کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا، بلکہ خلیفہ من جانب اللہ متعین ہوتا ہے، جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ خلافت اصحاب حل و عقد کے اختیار و انتخاب پر موقوف ہے۔ (مترجم)
[9] مروج الذہب للمسعودی (1/38)۔
[10] أثر التشیع علی الروایات التاریخیۃ (248)۔