کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 825
یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کے پس پردہ ان کے تقیہ کا شعار اور منافقت کی کارستانی جھلکتی ہے، یہ کتاب اسلامی تاریخ کی تدوین و تحریر میں انحراف اور کردار کشی کے خلاصہ کی حیثیت رکھتی ہے اور یہی کتاب ایسے بہت سے مستشرقین اور مغرب زدہ مؤلفین کا مرجع ہے جنھوں نے اسلامی تاریخ اور اس کی نامور ہستیوں پر طعن و تشنیع کی ہے، حالانکہ علمی اور تحقیقی اعتبار سے اس کتاب کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، کیونکہ اس کے قسم اوّل میں قصے، کہانیوں اور خرافات کی بھرمار ہے، جب کہ قسم دوم کے مشمولات گروہی نقطۂ نظر سے تحریر کیے گئے ہیں، اسی طرح منہجی اعتبار سے علمی و تحقیقی منہج کا جو سب سے آسان اور بنیادی قواعد ہیں وہ یکسر مفقود ہیں۔[1]
5۔مروج الذہب اور معادن الجوہر/تالیف المسعودی (ت 345ھ):
مسعودی کا نام ابوالحسن علی بن حسین بن علی المسعودی ہے، یہ صحابی رسول عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہے۔[2]اور کہا گیا ہے کہ اہل مغرب میں سے ہے،[3] لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ مسعودی نے اپنے بارے میں صراحت سے کہاہے کہ وہ اصلاً عراقی ہیں [4]اور مصر منتقل ہو کر وہاں سکونت اختیار کرلی تھی۔[5] ہاں اگر بلاد مغرب سے مراد بلاد مشرق کے برعکس شہر ہیں تو یہ ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ مصر اسلامی مغرب کے شہروں میں سے ایک ہے۔[6] مسعودی ایک شیعہ آدمی ہے، ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’اس کی کتب تشیع نوازی اور معتزلی حمایت سے لبالب بھری پڑی ہیں۔‘‘[7]
اس نے لکھا ہے کہ نظام ’’وصیت‘‘ عہد آدم علیہ السلام سے لے کر صدی در صدی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک چلا آرہا ہے، پھر اس نے نص[8] اور انتخاب خلیفہ کے بارے میں لوگوں کے اختلافات کی طرف اشارہ کیا ہے اور شیعوں کی رائے کو ترجیح دی ہے جو خلافت کو من جانب اللہ منصوص مانتے ہیں۔ [9]
اپنی کتاب مروج الذہب میں علی رضی اللہ عنہ سے متعلق حوادث و واقعات کو جس قدر اہتمام سے ذکر کیا ہے اس کے بالمقابل اسی کتاب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو کہیں زیادہ کم تر اہتمام سے ذکر کیا ہے، اس نے اپنی ساری کوشش اور سارا اہتمام واضح طور سے علوی گھرانے کے پیچھے صرف کیا ہے۔[10] اور نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے ابتدائے اسلام کی تاریخ کو مسخ کیا ہے۔
یہ چند قدیم کتب ہیں جن سے ہم خبردار کیے دیتے ہیں، اس لیے کہ بعض معاصر مؤرخین کی تحریروں میں اس
[1] تاریخ بغداد (11/398)۔
[2] المنتظم (7/40، 41)۔
[3] میزان الاعتدال (3/123)۔
[4] تاریخ الیعقوبی (2/180، 183)۔
[5] تاریخ الیعقوبی (2/131)۔
[6] تاریخ الیعقوبی (2/222)۔
[7] تاریخ الیعقوبی (2/232، 238)۔
[8] تاریخ الیعقوبی (2/123، 126)۔
[9] منہج کتابۃ التاریخ الإسلامی ص (431)۔
[10] منہج کتابۃ التاریخ الإسلامی ص (431)۔