کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 824
یہاں وہاں سے جوڑ کر تیار کرلیتاتھا۔‘‘[1]
ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس جیسے آدمی کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، وہ اپنی کتب میں ایسی ایسی باتوں کو صحیح قرار دیتا ہے جن کی وجہ سے اسے فاسق قرار دینا واجب ہوجاتا ہے، وہ شراب نوشی کی بالکل معمولی چیز سمجھتا ہے، بعض اوقات خود وہ اس کا اعتراف کرتاہے، اگر کتاب الاغانی کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو اس میں ہر قبیح اور منکر چیز ملے گی۔‘‘[2]
امام ذہبی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد تقی الدین بن تیمیہ کو دیکھا کہ وہ اس کی تضعیف کرتے تھے، اس کے حوالوں اور تحریروں پر شک کرتے تھے اور وہ جو کچھ بیان کرتاتھا اسے سنتے ہوئے گھبراتے تھے۔[3]
4۔ تاریخ الیعقوبی(ت:290ھ):
یعقوبی کا نام احمد بن ابی یعقوب اسحاق بن جعفر بن وہب بن واضح العباسی ہے، امامیہ فرقہ سے تعلق رکھنے والا ایک شیعہ مؤرخ ہے، بغداد کا رہنے والا تھا، سلطنت عباسیہ میں دواوین کا محرر ہوا کرتاتھا، اسی لیے اسے ’’عباسی کاتب‘‘ کا لقب مل گیا، یعقوبی نے شیعہ امامیہ کے نقطۂ نظر سے اسلامی دور اقتدار کی تاریخ مرتب کی ہے، چنانچہ شیعہ عقیدہ کے مطابق ائمہ کے تسلسل کے لحاظ سے وہ صرف علی بن ابی طالب اورآپ کی اولاد میں خلافت کو تسلیم کرتا ہے، اور علی رضی اللہ عنہ کو ’’وصی‘‘ کا نام دیتا ہے اور جب ابوبکر، عمر اور عثمان کی خلافت کی تاریخ لکھتاہے تو ان کے ناموں کے ساتھ ’’خلیفہ‘‘ نہیں لکھتا ہے، بلکہ ’’تَوَلَّی الْاَمْرَ فُلَانٌ‘‘ لکھتا ہے، پھر ان میں کسی پر طعن و تشنیع کیے بغیر نہیں گزرتا، وہ یہی برتاؤ کبار صحابہ کے ساتھ بھی کرتاہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا ،[4] خالد بن ولید ،[5] عمر و بن عاص،[6] اور معاویہ بن ابی سفیان[7] کے بارے میں نہایت بے ہودہ اور بری باتیں لکھی ہیں۔ واقعہ ’’سقیفہ‘‘ کو بے حد بھونڈے انداز میں [8] ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے جو کہ وصی تھے، خلافت چھیننے کی یہ ایک سازش تھی، ان بہتان تراشیوں اور افترا پردازیوں کا اسلوب و طریقہ اس کی قوم یعنی شیعہ و روافض سے چنداں مختلف نہیں، بلکہ انھیں کی طرح یا تو پورا واقعہ من گھڑت ہوتاہے،[9] یا روایت میں زیادتی اور اضافہ ہوتا ہے یا واقعہ کو کسی بے محل اور نامناسب مقام پر پیش کرتا ہے تاکہ اس کا معنی و مفہوم بدل جائے اوریہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ جب اموی خلفاء کو ذکر کرتا ہے تو انھیں ’’ملوک‘‘ سے اور خلفائے عباسیہ کا ذکر کرتا ہے تو انھیں ’’خلفائ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے، اسی طرح جب شہروں اور ملکوں کا تذکرہ کرتا ہے تو سلطنت عباسیہ کو سلطنت مبارکہ لکھتا ہے۔[10]
[1] الأدب الاسلامی ص (54، 55)۔
[2] اس طرح کی جعلی کتب کو پڑھنے سے پرہیز ضروری ہے کیونکہ اس سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ (مترجم)
[3] دیکھئے: السیف الیمانی فی نحر الاصفہانی / الأعظمی ص (9-14)۔