کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 823
تحریر تیسری صدی ہجری یعنی یونانی، فارسی، اور ہندی کتب کے تراجم سے پہلے مسلمانوں میں رائج نہ تھیں اوریہ جملے اور مقولے صحابہ کرام اور خلفائے راشدین سے زیادہ متکلمین اور اہل منطق سے ملتے جلتے ہیں۔[1] ٭ صحابہ کرام اور ان کے اور امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جو کچھ ہوا، اس سے متعلق اس کتاب کو پڑھتے ہوئے بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، اس کی باتوں کو کتاب و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے، جو ان دونوں کے موافق ہو اسے قبول کیا جاسکتاہے، اور جو مخالف ہو اس کی طرف توجہ نہ کی جائے۔[2] کتاب الأغانی: ابوالفرج الاصبہانی کی ’’کتاب الاغانی‘‘ ادب، قصہ کہانی اور گانے کی کتب میں شمار ہوتی ہے، یہ کوئی علمی، تاریخی اور فقہی کتاب نہیں ہے، ادباء اور مؤرخین کے نزدیک اس کتاب کا بڑا چرچا اور غلغلہ ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس میں شعوبیت (عرب دشمنی)، سازش، گھناؤنے جھوٹ، طعن و تشنیع اور عیوب و نقائص کا جو پلندہ موجود ہے اس پر خاموشی اختیار کی جائے، چنانچہ اس کار خیر کے لیے عراقی شاعر، معزز استاذ ولید الاعظمی نے قدم آگے بڑھایا اورایک عمدہ کتاب ’’السیف الیمانی فی نحر الأصفہانی صاحب الأغانی‘‘ کے نام سے تالیف کی، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے بکواس کو حقیقت سے اور زہر کو شہد سے الگ کرنے کے لیے پوری ہمت سے کمر کسی اور کوشش کی کہ اس کی جھوٹی داستانوں کو واضح اور اس کی سطور میں پیوست شعوبیت (عرب دشمنی) اور حسد کی چنگاریوں کو بجھا دیں، جو کہ حقیقت پرست سینوں میں آگ پر ابال کھاتی ہوئی ہنڈیوں کی طرح جوش مار رہی تھیں، چنانچہ آپ نے اصبہانی کی ایسی تمام تر لغویات کی تردید کی ہے، جو اس نے اخبار، جھوٹی کہانیوں اور آل بیت النبی کی گستاخی و ہتک آمیز باتوں پر مشتمل ایسی غیر مستند روایات کی شکل میں جمع کیا ہے جو ان کی سیرتوں کو مجروح اور اخلاقیات کو سیاہ دھبہ لگاتی ہیں، اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما اور اموی خلفاء کے بارے میں اصبہانی کی ان خام خیالیوں پر بھی بحث کی ہے جن کا دار و مدار فقط جھوٹی اور دسیسہ کار روایات پر ہے۔ نیز آپ نے اپنی دوسری کتاب ’’الحکایات المتفرقۃ‘‘ میں بھی اس کتاب کی ان حکایات کو شامل کیا جواسلامی عقیدہ اور اسلامی شریعت کو اپنے طعن و تشنیع کا ہدف بناتی ہیں اور جاہلیت کو اسلام پر ترجیح دیتی ہیں علاوہ ازیں اور بھی بے شمار اباطیل کا ذکر ہے۔[3] علمائے متقدمین نے بھی الاغانی اور اس کے مؤلف اصبہانی پر گفتگو کی ہے، چنانچہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ابوالفرج اصفہانی بہت جھوٹا شخص تھا، وہ بہت سارے صحائف کو خرید لیتا تھا اور اپنی تمام روایات کو
[1] منہاج السنۃ (4/24)۔ [2] لسان المیزان (4/223)۔ [3] الأدب و الإسلام / نایف معروف ص (53)۔