کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 821
ہیں، ایک سدّی کبیر (کلاں) اور دوسرے سُدِّی صغیر (خورد)۔ سُدِّی کبیر ثقہ اہل سنت میں سے ہیں جب کہ سُدِّی صغیر احادیث گھڑنے والا، کذاب اور متعصب رافضی ہے۔ اسی طرح ابن قتیبہ نام کے دو آدمی ہیں ایک عبداللہ بن قتیبہ جو کہ سخت متعصب رافضی ہے اور دوسرے عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ جو کہ ثقہ اہل سنت ہیں، آخر الذکر ابن قتیبہ نے ’’المعارف‘‘ نام کی ایک کتاب لکھی، تو آپ کے ہم نام رافضی نے بھی لوگوں کو بہکانے کے لیے ’’المعارف‘‘ نام کی ایک کتاب لکھ ڈالی۔‘‘[1] مذکورہ تمام نکات اس پہلو کو ترجیح دیتے ہیں کہ ’’الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ نامی کتاب ابن قتیبہ رافضی کی تالیف ہے، ابن قتیبہ ثقہ،سنی کی نہیں، نام کی مشابہت ہونے کی وجہ سے لوگوں نے دونوں میں خلط ملط کردیا۔ واللّٰہ اعلم۔[2] نہج البلاغۃ: صحابہ کرام کی درخشندہ تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنے والی کتب میں سے ایک ’’نہج البلاغۃ‘‘ بھی ہے، یہ کتاب سنداً و متناً ہر دو اعتبار سے مطعون اور قابل تنقید ہے، اس کتاب کے مشمولات بلا سند امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے تین سو پچاس (350) سال بعد جمع کیے گئے، شیعہ حضرات نے اس کتاب کی تالیف کو ’’شریف الرضی‘‘کی طرف منسوب کیا ہے جو کہ محدثین کے نزدیک اگر سنداً بھی کوئی بات کرے اور اس کے عقیدہ کے موافق ہو تو غیر معتبر ہے۔ پھر بھلا اس نے جن باتوں کو بلا سند کے تحریر کیا ہے جیسا کہ ’’نہج البلاغۃ‘‘ میں ہے تو اس کا کیا اعتبار ہوگا؟ بہرحال محدثین کے نزدیک جو شخص ’’نہج البلاغۃ‘‘ کی کذب بیانی سے متہم ہے وہ شریف الرضی کا بھائی علی ہے،[3] چنانچہ اس کے بارے میں علماء کے اقوال اور تحقیقات اس طرح ہیں: ٭ شریف المرتضی کی سوانح میں ابن خلکان لکھتے ہیں: ’’نہج البلاغۃ‘‘ کے بارے میں جو کہ امام علی بن ابی طالب کے کلام کا مجموعہ ہے، لوگوں کا اختلاف ہے وہ انھیں (شریف مرتضیٰ) کا ہے یا ان کے بھائی شریف رضی کا؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کا کلام نہیں ہے جس نے اس کو جمع کرکے علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اسی نے اس کو گھڑا ہے۔ واللہ اعلم[4] ٭ امام ذہبی فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص دقت سے نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے گا تو وہ یقین سے کہے گا کہ اس کے مشمولات علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہیں کیونکہ اس میں سیدین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو صریح گالی دی گئی ہے، ان کا مرتبہ گرایا گیا ہے، اس میں متضاد اور بھونڈی باتیں ہیں اور ایسی عبارات ہیں کہ جن کو دیکھ کر قریش صحابہ کی نفسیات اوران کے بعد کے متاخرین کی نفسیات سے واقف کار شخص پورے یقین اور اعتماد سے کہے گا کہ اس کی اکثر تحریریں باطل ہیں۔[5]
[1] الإمامۃ و السیاسۃ (1/12)۔ [2] الإمامۃ والسیاسۃ (1/54، 55)۔ [3] عقیدۃ الأمام ابن قتیبۃ ص (91)۔ [4] الإمامۃ والسیاسۃ (2/20)۔ [5] المعارف (401)۔