کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 820
مولف نے یہاں مجموع الفتاوٰی کا حوالہ اس عبارت کے آخری جز ’’آپ رحمہ اللہ کو مغرب میں نیک نامی میں شہرت حاصل تھی‘‘ کے لیے دیا ہے ورنہ یہ عبارت ڈاکٹر علی نفیع العلیانی کی ہے جو ان کی کتاب عقیدۃ الإمام ابن قتیبہ سے ماخوذ ہے۔ (مترجم) اللہ کی قسم! وہ (خلافت) ہمیں میں ہے، تم نفس کے پیچھے نہ چلو کہ اللہ کے راستہ سے گمراہ ہوجاؤ۔[1] اور شیعہ کے علاوہ کوئی یہ عقیدہ نہیں رکھتا ہے کہ خلافت اہل بیعت کی وراثت ہے۔ ٭ اس کتاب کے مؤلف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی زبردست تنقیص و مذمت کی ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کو بزدل اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو حاسد قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ محمد بن مسلمہ علی رضی اللہ عنہ پر غصہ ہوگئے، اس لیے کہ آپ نے خیبر میں ’’مرحب‘‘ یہودی کو قتل کردیاتھا، نیز لکھتا ہے کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔‘‘[2] بہرحال صحابہ کی تنقیص و مذمت روافض کی سب سے نمایاں صفت ہے، خوارج بھی اس میں شریک ہیں، لیکن وہ تمام صحابہ کے حق میں ایسی گستاخی نہیں کرتے۔[3] ٭ مؤلف لکھتا ہے کہ مختار بن ابوعبید کو قتل کرنے میں مصعب بن زبیر کا ہاتھ تھا، اس لیے کہ مختار آل رسول کی طرف دعوت دیتے تھے، مولف نے قتل کی بات تو لکھی لیکن مختار کی خرافات اور اس کے دعویٰ نبوت کو ذکر نہیں کیا۔[4] واضح رہے کہ روافض مختار بن ابوعبید سے عقیدت رکھتے ہیں کیونکہ اس نے قاتلین حسین سے بدلہ لیا تھا، جب کہ ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے مختار کو باغیان حکومت میں شمار کیا ہے، اور واضح طور سے لکھا کہ وہ اپنے پاس جبریل کی آمد یعنی نبوت کا مدعی تھا۔[5] ٭ اس کتاب کا مؤلف خلفائے ثلاثہ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی تاریخ خلافت کو فقط پچیس صفحات میں سمیٹ دیتا ہے، لیکن جب صحابہ کرام کے درمیان رونما ہونے والے فتنہ پر قلم اٹھاتاہے تو اسے دو سو صفحات پر پھیلاتا ہے، اس طرح نہایت صاف شفاف اور تابناک تاریخ کو نہایت اختصار سے پیش کرتاہے اور بے بنیاد تاریخ (جس میں شاید کچھ ہی باتیں صحیح ہوں) کے لیے صفحات کے صفحات سیاہ کرتا چلا جاتا ہے، یہ روافض کی عام عادات اور اخلاقیات میں شامل ہے، ہم اس گمراہی اور رسوائی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ ٭ سید محمود شکری آلوسی اپنی کتاب ’’مختصر تحفۃ اثنی عشریۃ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ان -روافض - کی سازش کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ وہ اگر اہل سنت کی کسی معتبر شخصیت کے نام کو اپنے کسی شیعہ راوی حدیث کے نام اور لقب سے ملتا جلتا پاتے ہیں تو شیعہ راوی کی مروی حدیث کو اس کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور جسے اہل سنت کے ائمہ و راویوں سے واقفیت نہیں ہوتی وہ سمجھتا ہے کہ یہ ہمارے ائمہ دین میں سے کوئی امام ہے اور پھر وہ اس کی بات پر اعتبار کرنے لگتا ہے اور اس کی روایت کو دلیل بنا لیتا ہے مثلاً ’’سدی‘‘ نام کے دو آدمی
[1] عقیدۃ الإمام ابن قتیبہ، علی العلیانی (90)۔ [2] لسان المیزان (3/357، 359)مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ (17/391) تحقیق مواقف الصحابۃ (2/144)۔ [3] تحقیق مواقف الصحابۃ (2/144)۔ [4] مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ (17/391) ۔